جس روز مجھے کتاب موصول ہوئی، گھر سے باہر تک مصروفیات کا ایک پھیلائو، کسی ریلے کی طرح مجھے بہائے چلا جا رہا تھا اور میں کاشف غائر کے اس شعر کی تصویر بنی تھی کہ۔ ایک نادیدہ سی زنجیر لیے پھرتی ہے، اپنی مرضی سے یہ انسان کہاں جاتا ہے۔ جلدی سے پیکٹ کھولا تو اندر محسن پاکستان عبدالقدیر خان کی خود نوشت تھی، نام تھا، داستانِ عزم! ساتھ ہی پبلشر کا ایک خط، جسے تیزی سے پڑھتے ہوئے میں اس کی ان سطروں پر ٹھہر گئی جس میں لکھا تھا کہ میں نہ اوریا مقبول جان ہوں نہ ہارون الرشید۔
سچی بات ہے یہ میرے لیے بے یقینی کی سی کیفیت تھی کہ عشق بے چارا، نہ ملّا ہے، نہ زاہد نہ حکیم! تو یہ عزت افزائی میرے حصے میں آئی۔ پبلشر کو فون کر دیا اور اس بے یقینی کا اظہار کیا۔ جواب آیا کہ ڈاکٹر صاحب نے خود آپ کا نام لکھوایا۔ میری آنکھیں اس عزت افزائی سے نم ہو گئیں۔ گھر کے اندر سے باہر تک مصروفیات میں لپٹا ہوا، بھاگتا، دوڑتا وہ دن کچھ لمحوں کے لیے ٹھہر گیا اور میرے ساتھ اس کیفیت میں شریک ہوا۔
دوسرے دن کتاب باقاعدہ پڑھنے کے لئے اٹھائی تو فجر کے بعد کا وقت تھا۔ روحانی سکوت سے بھرا ہوا وقت۔ انتساب پر نظرپڑی تو محسنِ پاکستان نے کتاب کا انتساب، اپنے عشق پاکستان کے نام کیا۔ پھر اپنی رفیق حیات، بچوں، افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے ہم وطنوں کے نام بھی کیا۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ یہ کتاب میرے نام بھی ہے۔ تاقیامت سرزمین پاکستان پر بسنے والے تمام پاکستانیوں کے نام بھی ہے۔
ایک شخص?ایک عظیم شخص، اپنے سودو زیاں کے ساتھ اللہ کے حضور حاضر ہو چکا جس نے اپنی زندگی پاکستان کی سلامتی کو ناقابل تسخیر بنانے میں صرف کر دی اور اب اس مختصر خود نوشت میں، وہ اپنا مقدمہ اپنے ہم وطنوں کے نام چھوڑ کر چلا گیا۔ وہ جنہوں نے اپنی آخری عمر کے بیماری اور صحت کی کمزوری کے سترہ اٹھارہ سال ایک جبری نظر بندی میں گزار دیئے۔
فجر کے بعد کا وقت?روحانی سکوت سے بھرا ہوا۔ نہ جانے کیسی کیفیت طاری ہوئی کہ آنکھیں باقاعدہ آنسو برسانے لگیں۔ پھر جوں جوں میں ان کو خود نوشت پڑھتی گئی، سچائی سے لبریز، سادگی اور بے ساختگی میں ڈھلا اندازِ تحریر دل میں اترتا گیا۔ آنکھیں نم اور دل اداس ہونے لگا۔ کیسا شخص تھا وہ، بے شک اپنے رب کا چنا ہوا، پاکستان کی سلامتی کو ناقابل تسخیر بنانے کا عشق زندگی کے سارے سود و زیاں پر بازی لے گیا۔
یہ کتاب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پچاسی برس کی زندگی کی خود نوشت تو نہیں مگر انہوں نے اپنی پچاسی برس کی زندگی جس خواب کو تعبیر بنانے پر وار دی اس خواب کی کہانی ضرور ہے۔
مختصر اور دو ٹوک انداز میں محسنِ پاکستان اس خواب کا پس منظر بیان کرتے ہیں، پھر اسے قریہ تعبیر تک لانے کے لیے، وہ جس کوہکنی سے گزرے ان راستوں او مشقتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ پہلے باب سانحہ مشرقی پاکستان میں لکھتے ہیں۔ یہ المناک واقعہ میری ایک درد ناک یادداشت بن گئی۔ بس یہ سوچنا کہ کیسے اپنے ملک کو محفوظ بنائوں۔
1972ء میں ایمسٹر ڈیم چلے گئے، وہاں یورنیم افزودگی میں مہارت حاصل کی۔ وہ لکھتے ہیں، 16دسمبر 1971ء کا دکھ ہر وقت یاد رہتا ہے یہاں تک کہ 18مئی 1974ء کو بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا اور پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا۔ پھر 1975ء میں پاکستان آئے اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی واپس نہ جائیں اور پاکستان میں رہ کر ایٹمی پروگرام پر کام کریں۔
پھر یہ واقعہ تحریر ہے جو کافی مشہور بھی ہے کہ ان کی غیر ملکی اہلیہ نے پہلے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہاں ہالینڈ میں ان کے ضعیف والدین تھے اور ان کے شوہر شاندار تنخواہ پر کام کر رہے تھے۔ بیٹیاں اعلیٰ سکولوں میں زیر تعلیم تھیں۔ پھر انکار کر کے وہ عظیم خاتون خود ہی اپنے شوہر نامدار سے سوال کرتی ہیں کہ اگر آپ پاکستان میں رک کر کام کریں تو پاکستان کو اس کا فائدہ ہو گا؟ ان کے شہر نامدار انہیں اپنے خواب سے آگاہ کرتے ہیں کہ میرے ملک کی سالمیت کے لیے اس خواب کی تعبیر حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ کام ان کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔ اہلیہ انہیں جواب دیتی ہیں کہ پھر ٹھیک ہے ہم آپ کے ساتھ ہی رہنے کو تیار ہیں۔ سلام ہے اس عظیم خاتون کو جو اپنے شوہر کے ساتھ تمام عمر کھڑی رہی، قربانیوں اور مشکل حالات میں حصہ دار بنی رہی اور غیر ملکی ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے لیے وہ فرض اتارے جو واجب بھی نہیں۔ پوری قوم کا آپ کو سلام عقیدت محترمہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ !
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف سازشیں بھی ہم وطنوں نے کیں اور سازشیں کرنے والے سب سے بڑا جواز یہ لاتے کہ یہ مہاجر ہے۔ اس کی بیوی غیر ملکی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے ایٹمی راز باہر منتقل ہو سکتے ہیں۔
31جولائی 1976ء میں پاکستان میں یورنیم افزودگی کے پہلے پراجیکٹ پر کام شروع ہوا اور محسن پاکستان کی شبانہ روز محنت اور کاوش سے بہترین ٹیم ورک کے ساتھ صرف دو سال کے مختصر عرصہ میں سینٹری فیوج مشینیں تیار کر لی گئیں۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے عظیم سائنسدان، محسن پاکستان ہم سے اپنے مخصوص دھیمے بھوپالی لہجے میں گفتگو کر رہے ہیں۔
ایک ٹیم کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی اعلیٰ ظرفی بھی کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ جب وہ اپنی ٹیم کے ایک ایک اہم ممبر کا نام لے کر اس کی خوبیاں بیان کرتے ہیں اور ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی تعریف کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیتے۔ وہ بار بار اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ میری ٹیم بہترین صلاحیتوں کی مالک تھی۔ میرے پاس ایسے اعلیٰ ترین قابلیت کے حامل انجینئرز تھے۔ (جاری ہے)