بے یقینی کا آسیب شہر کی گلیوں اور چوراہوں پر دندناتا پھرتا ہے۔ عدم استحکام ایک حبس کی طرح گھر وں کی بند کھڑکیوں سے ٹکراتا ہے۔ بدامنی کے سانپ شہر میں سرسراتے ہیں۔ تمام شہر تو نہیں مگر کچھ جگہیں ایسی حساس تھیں کہ گویا جنگ کا میدان گرم ہے، شہر والوں کے دل میں خوف اترتا ہے کہ جانے کس وقت کیا ہو جائے، آنے جانے کے پہلے سے طے شدہ پروگرام کینسل کرنا پڑتے ہیں اور دل میں اس ملاقات کے نہ ہونے کا قلق رہ جاتا ہے، جو بہت دنوں سے کلینڈر پر مارک کی ہوتی ہے۔
بچوں کے سکول سے چھٹی کا نوٹیفیکیشن آتاہے۔ جس پر لکھا ہوتا ہے کہ شہر میں غیر یقینی کی صورتحال ہے، امن و امان داؤ پر لگا ہے۔ مائیں نوٹیفیکیشن پڑھ کر بچوں کو اس اچانک غیر متوقع چھٹی کی اصل وجہ سے آگاہ نہیں کرنا چاہتیں، مبادا بچوں کے معصوم ذہنوں کی صاف سیلٹوں پر خوف کے تاریک سائے نہ پڑیں، مگر بچے بھی اس دور کے ہیں، ان کے معصوم ذہنوں تک حالات کی سب خبر پہنچ جاتی ہیں۔ گھر میں کام کرنے والی مدد گار خاتون آتی ہے تو سادہ لوحی سے سوال کرتی ہے کہ باجی لوگ کیوں سڑکیں بند کر کے بیٹھے ہیں؟ پھر اس سے بھی زیادہ سادہ لوحی سے ملک کے سیاسی اور معاشی حالات پر ایک بلا تکلف سیر حاصل تبصرہ کرتی ہے۔
حکومت وقت طاقت اور اختیار کے مقدس ایوانوں کے درمیان ہونے والی سرد جنگ اور اس کے مضمرات پر روشنی ڈال کر مجھے حیران کرتی ہے اور میری حیرت پر کہتی ہے کہ باجی میں تو پڑھی لکھی نہیں ہوں، مجھے تو ادھر ادھر سے باتوں کا پتہ چلتا ہے، آپ تو پڑھی لکھی ہیں، آپ بتائیں مجھے اور میں اس کو ہشش۔۔ !! کرکے خاموش کرتی ہوں اور کہتی ہوں رشیدہ بہتر ہے کہ تم جاکے کچن میں برتن دھو اور اپنے کام سے کام رکھو لیکن میری اس نصیحت کے جواب میں ہر روز مہنگائی پر ماتم کرنا نہیں بھولتی۔ باجی گھی مہنگا ہو چکا ہے، ہم جیسا غریب اب ہانڈی نہیں پکا سکتا۔ بس مرچیں گھوٹ کے گزارا کرنا پڑتا ہے۔ باجی ہم دیہاڑی دار ہیں، جب سے سڑکیں بند ہیں دیہاڑی والے تو مارے گئے ہیں۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ مزدور آدمی ان حالات میں کیسے مزدوری کرے گا۔ ایک طرف خوف کے بادل سروں پر منڈلا رہے ہیں تو دوسری طرف گھروں میں فاقے ہیں۔ رشیدہ ٹھیک ہی تو کہتی ہے یہاں کسی کو اس غریب طبقے کی پرواہ نہیں جو زندگی کے ایک ایک سانس کو روٹی کمانے کی مشقت میں جھونک کر بھی دو وقت کی روٹی کھانے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ میں کبھی سوچتی ہوں کہ حکمران ان دیہاڑی دار طبقے کی نظر سے زندگی کو دیکھیں تو شاید بہتر فیصلے کر سکیں، اپنی خوش فہمیوں کے قلعوں سے باہر نکل کر سنیں اور دیکھیں کہ خلق خدا کس عذاب میں ہے۔ رشیدہ کام میں لگ گئی اور میں اس کے سوال پر سوچنے لگی۔ کہ باجی لوگ سڑکیں کیوں بند کرکے بیٹھے ہیں۔ رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے حوالے سے فرانس کی یہ گستاخی ناقابل معافی جرم ہے۔
سفارتکاری کے محاذ پر بھی خاموشی ہے۔ یہ آزاد رائے کا معاملہ ہرگز نہیں ہے یہ اربوں مسلمانوں کو جان بوجھ کر تکلیف دینے کی ایک کوشش ہے اس پر بھر پور طریقے کا موثر احتجاج نہ کرنا جمہوریہ پاکستان کے لیے شرمناک ہے۔ مطالبہ درست ہے مگر مطالبے کو منوانے کے لیے یہ طریقہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے۔ حالات کو اس نہج تک پہنچانے والی بھی خود حکومت ہے۔ معاہدے کرنے اور معاہدوں سے یو ٹرن لینے، وعدے کرنے اور وعدوں کو توڑنے کی روایت اس معاملے پر بھی برقرار رکھی گئی ہے۔ ہزار تاسف کہ اہل اختیار میں کوئی ایسا صاحب حکمت نہ تھا جو سلیقے اور قرینے سے معاملات کو برتتا۔
وردی میں جان سے جانے والوں کا بھی دکھ ہے اور ان کا دکھ بھی ہے جو دھرنا دئیے بیٹھے تھے، جو اس دھینگا مشتی میں لہو لہان ہوئے۔ ان میں سے بیشتر غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، ان کے والدین ہیں، بیوی بچے ہیں۔ زخمی ہونے والے نوجوانوں کا علاج کون کرائے گا، ان کے چہروں سے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان کی جیبیں خالی ہیں، تو کیا ریاست اس کی ذمہ داری لے گی، کیا سرکار کے خرچے پر ان غریبوں کا علاج کروایا جائے؟ یہ سب تماشہ سڑکوں پر ہوتا رہا۔ سب سے بڑھ کریہ کہ آپ نے وہ معاہدے کیے ہی کیوں ہیں، جو آپ پورے نہیں کر سکتے تھے، اس کا کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے تھا۔
مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس صحیح سمت میں سوچنے والا دماغ ہی نہیں۔ خود وزیر اعظم سعودی عرب کے دورے پر پہنچ گئے ہیں جبکہ وزیر داخلہ سرزنش کے بعد اپنی چھٹی کینسل کر کے پاکستان پہنچے ہیں۔ یہ ساری صورتحال دیکھ کر سوچتی ہوں کہ اس صورتحال میں پاکستان کا والی وارث کون ہے؟