ماہ فروری کے اختتامی دنوں میں گٹے گوڈوں کو اپاہج کرنے والی سردی کا زور ٹوٹ گیا تھا۔ اس سہ پہر جب فضا میں بہار کے رنگ امنڈتے دکھائی دیتے تھے۔ بھاٹی دروازے کی طرف جاتے ہوئے مجھے دفعتاً عوامی لوگوں کے چلتے پھرتے، بھاگتے دوڑتے ہجوم نے ان تہواروں کی یاد دلائی تھی جو اِن موسموں سے جڑے ہوتے تھے جو لاہور کی پہچان اور اس کے ثقافتی کلچر کا طرۂ امتیاز تھے۔ اب بھلا اِن کے ساتھ جڑے ہوئے صوفی تبسّم کیوں نہ یادآتے۔ وہ آئے اور میری آنکھوں کو نم کرتے ہوئے میرے ہونٹوں کو بھی متحرک کرگئے کہ میں اُن کی وہ خوبصورت نظم "میلہ شالامار کا"گنگنانے لگی تھی جو اسی سلسلے کی ایک خوبصورت لڑی تھی۔
دہقانوں کی ٹولیاں گاتی آئی بولیاں
آؤ منائیں شوق سے میلہ شالامار کا
نظم کے بقیہ بند مجھے دھیرے دھیرے یاد آرہے تھے۔ بچپن کی رومینٹک فینٹسی کا سارا حسن اردگرد یادوں کی مہک کے ساتھ پھیل گیا تھا۔
یقینا یہ میرا وہ قلبی تعلق تھا کہ صرف دو دن بعد ڈاکٹر فوزیہ تبسم اُن کی پوتی نے مجھے فون کرتے ہوئے کہا"گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور صوفی تبسّم پر کانفرنس کررہا ہے۔ آپ اُن پر کچھ بولنا چاہیں گی۔۔ نیکی اور پوچھ پوچھ۔ میرا بچپن مقروض ہے ان کا۔"۱۱ مارچ کی صبح سٹیج وائس چانسلر اصغر علی زیدی، ایرانی کونسلرز اور یونیورسٹی کے قابل فخر استادوں سے سجی ہوئی تھی۔
پروگرام کے آغاز میں ڈاکٹر فوزیہ تبسم کی بیٹی نے ایک ڈاکومینٹری دکھائی تھی۔ نوجوان بچوں کو صوفی تبسم بارے کچھ علم نہ تھا دُکھ ہوا۔ ایسا کیوں؟ یہ سوال میں نے سٹیج پر کھڑے ہوکر حاضرین سے پوچھا تھا اور کہا تھا کہ ہال میں موجود بیشتر عمر رسیدہ لوگوں نے یقینا اپنے بچپن میں لہک لہک کر صوفی تبسم کی نظمیں پڑھی ہوگی جو میری طرح آپ کی یادوں میں بھی ٹکڑوں کی صورت کہیں محفوظ ہوں گی۔ تو چلیں نا چند لمحوں کے لیے اس دنیا میں
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
باپ تھا اس کا میر سلوٹ
پیتا تھا وہ سوڈا واٹر
کھاتا تھا بادام اخروٹ
صبح کو ہوتا کلکتے میں
شام کو ہوتا چڑیا کوٹ
1968سے پہلے تک میری اُن سے براہ ِراست شناسائی نہ تھی۔ پہلی شناسائی اُن کی بیٹی کے حوالے سے ہوئی۔ جو پاک فضائیہ لاہور بیس کے سکول کی سربراہ کے طور پر کام کرتی تھیں اور جہاں میری تقرری ایک استاد کے طور پر ہوئی تھی۔ چند دنوں بعد جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ صوفی تبسّم کی بیٹی ہیں تو جیسے میں خوشی سے نہال ہوگئی۔ لو پیاری سی نظم "ثریا کی گڑیا"ہنستی مسکراتی کدکڑے لگاتی سامنے آگئی اور مجھے گنگنانے پر مجبورکردیا۔ میں نے اپنی باس کے سامنے کھڑے ہوکر اس محبت کا عملی اظہارکیا اور اُن سے کہا"آپ کتنے عظیم آدمی کی بیٹی ہیں۔"
اب میں ذرا ذاتی ملاقاتوں کی طرف آتی ہوں۔
پہلی ملاقات ریڈیو پاکستان میں ہوئی۔ پروگرام پر وڈیوسر جناب باسط صاحب سے ملنا تھا۔ وہاں صوفی صاحب بھی موجود تھے۔ اخباری جھلکیوں والے صوفی صاحب ذہن میں تھے۔ یہاں جو صوفی صاحب ملے۔ ماشاء اللہ اُن کا سُرخ و سفید چہرہ بالوں کی جھالروں میں لشکارے مارتا تھا۔ میں کھڑی ہوگئی اور"نہر میں اک دن لگ گئی آگ، پھوں پھوں کرتا نکلا ناگ، چوں چوں چاچا، ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی" جیسی ساری نظمیں جوش و خروش سے انہیں سُنا دیں۔ میری آنکھوں سے چھلکتی خوشی اور مسرت سے انہوں نے لُطف اٹھایا۔ میں نے اُن کے قریب بیٹھتے ہوئے اُن کے ہاتھ تھامے اور بولی"صوفی صاحب میرے بچپن کی ساری رنگینیاں آپ سے جڑی ہوئی ہیں۔ آپ کی عظمت کا احساس مجھے شعور آنے پر ہوا۔ اس ملک کا کون سا ایسا ادیب ہے جس نے بچوں کی نفسیات کو سمجھا۔ یہ بچے ہی تو ہیں جن کے گھوڑے آسمانوں میں رقص کرتے ہیں۔ جو نہر کے پانیوں میں آگ لگتی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ پریاں اور دیو جن کے دوست اور دشمن ہیں۔ کیا کِسی نے غور کیا کہ اِن نظموں میں موسقیت کی جو جھنکار ہے وہ بچوں کی کتنی بڑی نفسیاتی ضرورت کی تسکین ہے۔ ان کا ترنم، ان کی نغمگی، ان کا موضوع سب کا گہرا تعلق بچوں کے مزاج، اُن کی خواہشات، اُن کے عمری رحجانات اور اُن کی معصومانہ آرزوں کی عکاس ہیں۔ جنہیں یہ بڑے لوگ جانتے ہی نہیں اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے بچوں کو حقیقت پسند بنائیں۔ صوفی صاحب آپ بتائیے نا زندگی کے رگڑوں اور ٹھڈوں نے انہیں حقیقت پسند بنا ہی دینا ہے۔ یہ لوگ بچوں سے ان کا بچپن بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔"صوفی صاحب زندہ ہوتے تو میں انہیں وہ واقعہ ضرور سناتی کہ جب الف لیلیٰ کی کہانیاں پڑھ کر میں خود کو شہرزاد خیال کرتی۔ ہر رات شہر یار کی خوابگاہ میں داخل ہونے اور اُسے کہانی سنانے والی میں ہوتی۔ 2008میں جب بغداد گئی دجلہ کے کنارے شہر یار کے کالے کلوٹے مجسمے کو دیکھ کر اتنا ہنسی تھی کہ آنکھوں سے آنسو صاف کرنے پڑ گئے تھے۔"لومیں بھی نری الو کی پٹھی تھی۔"
اب جب بھی ریڈیو اسٹیشن جانا ہوتا میں کوشش کرتی کہ صوفی صاحب سے ملاقات ہوجائے۔ بہت پیارے بڑے کھلے ڈلے، لگی لپٹی کے بغیر بات کرنے والے۔ 1977میں، اردو ڈائجسٹ میں ملازمت شروع کی۔ اس وقت دفتر سمن آباد میں تھا۔ سمن آباد میں ہی صوفی صاحب کا نیا گھر تھا۔ اپنی ایک دوست کے ساتھ اُن سے ملنے چلی گئی۔ سرخ باڈر اور سبز و سفید خانوں والی لینن جیسے کپڑے والی لنگی پہنے حُقے سے شغل کررہے تھے۔ حقہ کی نے اک ذرا منہ سے نکالتے ہوئے دیکھ کر ہنسے۔ میں نے انہیں اپنی جاب کا بتایا۔"کبھی عابد علی عابد کے گھر بھی گئی ہو پوچھا۔ وہ وہیں تمہارے علاقے میں ہی تو رہتے ہیں۔"ہاں رہتے تو ہیں۔ بنسی والے تالاب کے پاس۔ اُن کی بیٹی شمع میری کالج فیلو تھی۔ بڑی بددماغ اور مغرور۔ گھر دیکھے ہوئے ہوں مگر اندر نہیں گئی کہ مجھے اُن سے محبت نہیں۔"بہت ہنسے۔ چائے پلائی باقرخانی کے ساتھ۔
مجھے محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار سے بھی یہ پوچھنا ہے کہ انہوں نے صوفی تبسم کی نظموں کو بچوں کے نصاب میں اونٹ کے منہ میں زیرے جیسی صورت کے ساتھ داخل کررکھا ہے۔ کیوں بھلا۔
یہ صورت بھی صرف گورنمنٹ سکولوں میں ہے۔ پرائیوٹ سیکٹر اور مہنگے اسکولوں کی اردو کتب میں تو اُن کا حصّہ رائی برابر بھی نہیں۔ اور یہی وجہ ہے آج کے بچوں کو اس عظیم ہستی کا نام تک نہیں معلوم۔ ہے نا المیہ۔ میں لمز جیسے ادارے کے بانی بابر علی کے لیے دعا گوہوں جنہوں نے اِس کانفرنس کو منعقد کروایا۔ بہت مشکور ہوں جناب علی اصغر زیدی صاحب کی، جناب معین الدین نظامی صاحب، ڈاکٹر عمر عادل اور ڈاکٹر فوزیہ تبسم کی کہ انہوں نے میری محبوب شخصیت کے بے شمار گوشوں پر بات کی جن سے میں ناآشنا تھی۔