اس تحریر کو لکھنے کا محرک حسن نثار کا، 16 جون کا کالم ہے۔ اُن کے قارئین اُن سے ابنِ عربی کے بارے کچھ جاننے کے خواہش مند تھے۔"ارے" خود سے کہا میں تو اُس عظیم ہستی کے مزار پر حاضری کی سعادت حاصل کئے بیٹھی ہوں۔ کیوں نہ اپنے "خبریں"کے قارئین کو تھوڑی سی سیر اور تھوڑی سی معلومات دوں۔
شام اورعراق کا سفر میں نے ایک زیاراتی قافلے کے ساتھ کیا تھا۔ دراصل عراق جانے کےلئے مری جارہی تھی۔ المناک کہانیاں اور واقعات آوازیں دے رہے تھے۔ جنگ گو ختم تھی۔ مگر امریکی اس کے چپے چپے پر بیٹھے تھے۔ کوئی دوست اِس مہم جوئی کےلئے تیار نہ تھی۔ بس تو امیرِ کارواں کو لگی لپٹی کے بغیر اپنی ترجیحات کُھل کر بتا دیں کہ مسلمان تو میں بس ایویں سی ہوں۔ شریف النفس شخص نے مجھ جیسی سرکی ہوئی خاتون کو اپنے تعاون کا مکمل یقین کروایا۔ خوش قسمتی کہ قافلے میں ایک کُھلے ڈلے ذہن والا جوڑا اور خاتون بھی ٹکرا گئے جو اکثر و بیشتر چپکے سے میرے ساتھ چل پڑتے تھے۔
عراق جانے سے ایک دن پہلے جبل قاسیون جانے کا پروگرام فائنل ہوا تھا۔ اسی لئے آج میں شہر کےلئے نکلی تھی۔ دوپہر کے کھانے کا انتظار تھا کہ کسی صاحب ثروت کا بڑا اہتمامی سا لنچ تھا۔ جبل قاسیون کو جب جب میں نے دمشق میں چلتے پھرتے دیکھا۔ مجھے توپہاڑ پر کہیں ٹھہرے ہوئے اورکہیں متحرک کئی منظر نظر آتے تھے۔ اب اللہ جانے یہ سراب تھے یا حقیقی۔ بہر حال ایک منظر تو بڑا واضح ہو کر کئی بار آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔ سفید عمارت، سادہ سی کھڑکیوں اور سبز چھت کے ساتھ نظر آتی تھی۔ پہلی باراس منظر کے نظر آنے پر میں نے قریب سے گزرنے والے ایک پڑھے لکھے اور سمجھداری کی کسوٹی پر پورا اُترنے والے شخص کو بلا تکلف روک لیا تھا۔ ادھیڑ عمری کے پیٹے میں مرد نے رک کر صاف ستھری انگریزی میں بتایا تھا کہ یہ محی الدین ابن عربی کا مزار مبارک ہے۔ ایک اور نے یہ بتایا تھا کہ اسی پہاڑ پر وہ مقام بھی ہے جہاں دنیا کا پہلا جرم ہوا تھا۔ قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا۔ جاتے جاتے اُس نے یہ بھی بتایا کہ وہاں کچھ اور بھی یادگاریں ہیں۔ اگر گئیں تو وہ سب دیکھ لیں۔
چکن قورمہ، چکن پلاؤ اور حلوے جیسا زور دار قسم کا کھانا کھا کر جب چلے، تو دو بج رہے تھے۔ صلاحیہ کواٹر کے بعض حصے بہت خوبصورت، ماڈرن اور شاندار تھے۔ ہاں البتہ بعض قدرے ماٹھے تھے۔ یہاں صدیوں پہلے وہ لوگ آباد ہوئے جو صلیبی جنگوں میں عیسائیوں کے ظلم وستم سے پناہ ڈھونڈتے یہاں آئے۔ پہاڑیوں کے دامنوں اور اس کی ڈھلانوں پر کہیں چھوٹے موٹے گھروں اور کہیں خیموں کی صورت پھیلتے اور آباد ہوتے چلے گئے۔ ان کا زیادہ پھیلاؤ دریائے Toraکے ساتھ ساتھ ہوا جو دراصل دریائے برادہ کی ہی ایک شاخ تھی۔
آنے والے وقتوں کی دہائیوں میں وہ کُرد جنگجو بھی جو صلاح الدین کے ساتھ آئے تھے۔ یہی کوئی بارہویں صدی میں وہ بھی یہیں سکونت پذیر ہوگئے۔ یوں اِسے کچھ لوگ کردوں کا علاقہ بھی کہتے ہیں۔ المہاجرین بھی اسی کا نام ہے۔ دھیرے دھیرے مسجدیں، مدرسے، اسپتال اور بہت سی شاندار عمارات بنتی چلی گئیں اور یوں یہ دمشق کا ہی اےک حصّہ شمار ہونے لگا۔
ٹیکسی چلانے والا لڑکا اچھا ڈرائیور تھا۔ تنگ تنگ گلیوں میں سے بھی گاڑی کو لہراتا ہوا نکال کرلے جاتا۔ بعض جگہوں کے منظر نظروں پر بڑے گراں گزرتے تھے کہ بے ڈھبے سے مکان، تنگ گلیاں، ان میں بہتی نالیاں، دوڑتے بھاگتے پھرتے بچے۔ گلیوں میں ہی کریانے، پنساری کی دکانیں اُن میں خریداری کرتے نچلے متوسط طبقے کے لوگ۔
گاڑی رُکی اور پتہ چلا کہ مزار تک پیدل جانا ہوگا۔ من و عن وہی درباروں والا منظر تھا۔ جب میں دائیں بائیں دیکھتے ہوئے راستے پر آگے بڑھتی تھی۔ اپنے وقت کا، اپنے بعد آنے والے وقتوں کا بہت بڑا عالم بھی میرے ساتھ ساتھ تھا۔ میں اُن کی کتاب زندگی کے ورق پلٹی تھی۔
شیخ محی الدین ابن عربی کی آبائی جگہ مرسیا Mursiya، سپین کا ایک علاقہ تھی۔ سن پیدائش یہی کوئی 1165ءاور وفات1240ءکی ہے۔ والد مرسیہ کے دربار سے جڑے ہوئے تھے۔ ماموں اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ ابتدائی تعلیم تو مرسیہ میں ہوئی۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق بچپن ہی سے بہت نمایاں تھے۔ آٹھ سال کی عمر میں اشبیلیہ نقل مکانی ہوئی۔ وہاں کے علمی اور ادبی ماحول میں تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس وقت اُندلس یورپی اثر کے تحت اندرونی مقامی سےاست میں بہت بری طرح اُلجھا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اندلس علم و ادب اور فکری تحریکوں کا مرکز تھا۔ جوان ہوئے تو شہروں اور ملکوں ملکوں پھرنا اور صاحب علم لوگوں سے ملنا شروع کردیا۔ سینتیس37سال میں حج کیا۔ پھر نہ اُندلس گئے اور نہ مراکش۔ کچھ وقت میسو پو ٹیمیا اور ایشیائے کوچک میں گزارا۔
رجعت پسند عالموں نے ان کی روشن خیالی کی بہت مذمت کی۔ قاہرہ میں بھی اُن کے نظریات وخیالات کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ نکالے جانے پر اصرار تھا۔ ساٹھ سال کی عمر میں وہ دمشق آئے اور پھر یہیں انہوں نے ڈیرے لگالئے۔ اپنے وقت کے ابنِ عربی جو اسلامی تھیالوجی (Theology)پر ایک اتھارٹی کی سی حیثیت رکھتے تھے۔ یہ شخصیت اپنے عہد کے دانشور، فلاسفر، لکھاری، مذہبی رہنما، صوفی شخصیت اور سائنس دان تھے۔ اِس وقت کی پوری اسلامی دنیا میں وہ زیر بحث تھے۔ کچھ سائنس دانوں کو ان کے مابعد طبیعاتی Metaphysical نظریات سے اختلاف تھا۔ کچھ حامی تھے۔ کچھ کا خیال تھا کہ وہ اسلام کے عظیم ترین فلاسفر ہیں۔ کچھ کا خیال اُن کے دہریے ہونے پر تھا۔ کچھ اور کا کہنا تھا کہ اُن کی فکری سوچ اور تحریر کی تحریک دراصل خدائی تحفہ ہے۔ صوفی ازم اُن کے خیال میں ذہنی پریشانی کا واحد علاج ہے۔ فلاسفی شک کی طرف لے جاتی ہے۔ ابہام پیدا کرتی ہے۔ مگر خدا سے براہ راست رابطہ ہی روح کو سکون دیتا ہے۔ انہوں نے اپنے اِس نظریئے پر بہت سی کتابیں لکھیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں سینکڑوں کتابیں اور مضامین اُن کی زندگی، اُن کی کتابوں، اُن کے افکارو خیالات پر لکھے گئے۔ یہ کام زیادہ عربی، انگریزی، جرمن، سپینش، فرنچ اور فارسی میں ہوا۔ بہت سے ماہر شرقیات اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ابن عربی کی تحریروں نے بہت سے فلاسفروں، دانشوروں اور صاحب علم لوگوں کو متاثر کیا جیسے ریمنڈلولیو Raymond Loleo اور دانتے۔ دانتے کی ڈیوائن کومیڈی کے بارے تو یہ تاثر بھی ہے کہ وہ اُن سے بہت متاثر ہے۔ جاپانی ماہر شرقیات Ezotsuکاکہنا ہے کہTaoism فلاسفی، صوفی ازم اور تصوف کے میدانوں میں ابن عربی سے بہت متاثرہے۔
میں نے کتاب بند کردی تھی کہ زندہ کھلی کتاب کے سامنے اُسے پڑھنے اور دیکھنے کے مقام پر تھی۔ ڈرائیور کو میں نے کہتے سُنا تھا کہ قاسیون کا پہاڑی سلسلہ بس یہیں سے شروع ہو جاتا ہے۔ زائرین کی بہتات اور وہی مخصوص ماحول جو صوفیائے کرام کے درباروں اور مزاروں کا خاصہ ہوتا ہے اپنی پوری رنگینیوں سے یہاں کار فرما تھا۔ ملحقہ مسجد بہت خوبصورت، خاص طور پر مینار کی کندہ کاری نظروں کو کھینچتی تھی۔ مزار سطح زمین سے نیچے ہے۔ کئی پوڈے اُتر کر جانا پڑا تھا۔ اندر کا منظر بہت خوبصورت تھا۔ شیشے میں مقید مزار مبارک اپنی رعنائیاں بکھیر رہا تھا۔ قیمتی قالین بچھے تھے۔ فانوسوں کی روشنی ماحول کو جگمگ جگمگ بناتی تھی۔ نم آنکھوں سے اٹھے ہوئے بے شمار ہاتھوں میں ہمارے ہاتھ اور آنکھوں میں اُتری نمی بھی اس ماحول میں شامل ہوگئی تھی۔ آپ کے پہلو میں آپ کے دو بیٹے سعید الدین و عمادالدین کے مزار ہیں۔ عقبی سمت میں کچھ قبریں ہیں۔ ملحقہ دروازے دوسرے کمروں میں کھلتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ جب آبادی کا پھیلاؤ ہوا تو مزار کہیں ملبے کے نیچے آگیا۔ یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ آپ کی پیشن گوئی تھی کہ جب سین شین میں داخل ہوگا تب محی الدین کی قبر ظاہر ہوگی۔ روایت ہے کہ جب عثمانی سلطان سلیم نے شام فتح کیا۔ یعنی سلیم کا سین شام کے شین میں داخل ہوا تو اس نے آپ کے مقبرے کے مقام پر کسی عمارت کے لئے کھدائی کروائی تو لوح مزار نکل آئی۔
ہم نے نفل پڑھے۔ فاتحہ خوانی کی۔ مدرسہ بھی دےکھا۔ پتہ نہیں کتنے لاکھوں ذہنوں کی سیرابی ہوئی۔ یہاں بھی نفل پڑھے اور باہر آگئے۔ مجاوروں نے مت مار دی تھی۔ نسرین کے پاس ٹوٹی ریز گاری تھی۔ وہی دے کر جان چھڑائی۔