یہ اگست 2021ہے اور پاکستان اپنی چوہترویں سالگرہ منا رہا ہے۔ اللہ اِسے سدا آباد و شاد رکھے۔ اس کے چہرے سے وہ سیاہی اُتار دے جس نے اسے گہنا دیا ہے۔ یہ دراصل میری عمر کے لوگوں کا وطن ہے جن کا جنم ضرور ہندوستان میں ہوا تھا مگر جنہوں نے ہوش اِس آزاد سرزمین میں آکر سنبھالا۔ یہ ہماری ماؤں کا کسی حد تک مگر ہماری نانیوں اوردادیوں کا وطن نہیں تھا کہ ایک آہ ان کے کلیجے سے نکلتی اور تان ہمارے دیس ہندوستان پر ٹوٹتی تھی۔ کچھ ان کا بھی دوش نہ تھا۔ وہ جڑی ہوئی تھیں اُس مٹی سے جہاں سے انہیں آنا پڑا تھا۔ اور جس کے بارے انہیں امید تھی کہ یہ رولا غولا تو فقط چند دنوں کا ہی ہے۔ جونہی یہ ختم ہوا وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گی۔
آزادی کا جشن یہ ملک کیسے مناتا تھا اس کی ہر تصویر میری آنکھوں میں رقصاں ہے۔ ایک مدّت تک چودہ اگست میں نے اپنی دادی کے پاس ضلع فیصل آباد کی تحصیل سمندری میں منایا۔ گلی گلی کوچہ کوچہ جھنڈیوں سے سج جاتا اور شام کو پورے قصبے میں ملٹری بینڈ کے سپاہی موسیقی کی دھنوں پر مارچ پاسٹ کرتے، کرتب دکھاتے، ٹرمپٹ ز کے لشکارے آنکھوں میں کُھبے جاتے۔ بگل کی سنسی رگ و پے میں دوڑتی چلی جاتی۔ اُن کی کلف لگی وردیاں، گردن سے بندھی پشت پر لٹکتی سرخ روپہلی چادریں، کلارنٹ اور بین نما آلہ بجاتے سپاہی اف کتنے حسین لگتے۔ ساری شام ان کے ساتھ گشت کرتے، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے۔ ننگے پاؤں کو نہ دھول مٹی کی پرواہ ہوتی اور نہ وہ روڑے کنکر چبھنے سے خائف ہوتے۔ نہ اگست کی گرمی اور حبس ہمیں کچھ کہتا۔
کھیلوں میں حصّہ لینا بے حد ضروری ہوتا۔ سکول لیول پر پاکستان ڈے پر پریڈ ہوتی۔ ہمارے سکول میں گراؤنڈ نہیں تھی مگر سامنے بوائز کی بڑی گراؤنڈ کو استعمال کیا جاتا۔ اچھے بچوں کا چناؤ ہوتا اور وہ ڈسٹرکٹ لیول پر کھیلنے جاتے۔ وہاں سے پھر آگے ٹیمیں ڈویژنل لیول پر کھیلتیں۔ لفظوں میں بیان کرنا چاہوں تو لفظ تھوڑے پڑ جائیں گے جو ہمارے جوش و خروش اور ہمارے احساس و جذبات کی نمائندگی کرسکیں کہ جب دوسرے شہروں میں جانے کے لیے بسوں میں بیٹھتے۔
بصارتوں میں وسیع و عریض میدان نظر آتے ہیں۔ تاحد نظر سفید لقی کبوتریاں مختلف رنگوں کی پٹیاں پہنے بھاگتی پھر رہی ہیں۔ ان کے چمکتے چہرے عزم و حوصلہ کے رنگوں سے دمک رہے ہیں۔ مہمان خصوصی کی آمد کا اعلان ہورہا ہے۔ کِس تمکنت سے بیگم منظور قادر سلامی کے چبوترے پر چڑھتی ہیں۔ یہ وہی منظور قادر ہیں جو کبھی پاکستان کے وزیر خاجہ بھی رہے۔ دو دن کے اِس ٹرپ میں مختلف ضلعوں سے آنے والی لڑکیوں سے ملاقاتیں، دوستیاں، خط لکھنے کے وعدے۔ کیسے وہ دن تھے جو جانے کہاں کھو گئے۔
ایک دن جب ملک کے نامور صحافی جناب محمود شام کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے میں نے بڑے اونچے سکولوں میں پڑھنے والے اپنے بچوں کے بچوں کو یہ سب سنایا۔ ان کی آنکھوں میں حیرت تھی کہ اِس طرح کی سرگرمیو ں سے وہ کب آشنا تھے؟ اُن کی سکولوں کی عمارتوں میں کھیل کے میدان اتنے بڑے تھے ہی نہیں اور نہ ہی اِن دیسی قسم کی کھیلوں سے انہیں کوئی رغبت تھی۔
میرے موبائل کی سکرین پر ایک منظر جھلملایا تھا۔ یہ مری کے سبزہ زاروں پر گرل گائیڈ لڑکیوں کی ایک تصویر تھی۔ گائیڈنگ کے مخصوص یونیفارم میں لڑکیوں کا لہک لہک کر وطن کے گیت گانے کو میں نے حیرت اور مسرت سے دیکھا تھا۔ ارے یہ بھولا بھٹکا منظر کہاں سے میری بصارتوں سے آٹکرایا ہے۔ بیگم جی اے خان یاد آئی تھیں۔ ذمہ دار اور فرض شناس سربراہ جس کی ہر سوچ اور عمل کا منتہائے مقصود اس ملک کی بچیوں کو صحت مند سرگرمیوں کے ساتھ پروان چڑھانا تھا۔ پورے پاکستان میں نوجوان نسل کے لیے گرل گائیڈنگ اور بوائے سکاؤٹنگ جیسی سرگرمیاں لازم تھیں۔
آج اگر اِن جذبات و احساسات کا تجزیہ کروں کہ جب ہم جیسے غریب گھروں کی بچیاں گھروں سے کیمپنگ کے لیے نکلتی تھیں تو خوشی و مسرت اور تھرل کِس انتہا پر ہوتا تھا۔ ایک جوش، ایک عزم کچھ دیکھنے، کچھ دریافت کرنے، کچھ جاننے خود کو منوانے کا۔
ہم نے ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھا۔ چھٹی جماعت سے انگریزی شروع ہوئی۔ اماں ابّا دونوں ان پڑھ۔ چھٹی میں داخلہ لیٹ ہوا۔ اے بی سی سیکھنے کا وقت نکل گیا۔ لکھنا نہیں آتا تھا۔ روز مارپڑتی۔ پھر تفریح کے پریڈ میں کتاب کو دیکھ دیکھ کر کاپی پر لکھتی جاتی۔ مار سے بچنے کے لیے۔ بس یوں لکھنا آگیا۔ نہ ہمیں ایگو ہرٹ ہونے کا پتہ تھا۔ نہ ہمارے ماں باپ کو ہماری شخصیت کے مجروح ہونے کا کوئی ڈر تھا۔ کہاں گئیں وہ سب صحت مند باتیں اور سرگرمیاں۔
ادارے کیسے تباہیوں کے کنارے پہنچ گئے ہیں۔ حرص و ہوس نے لوٹ کھسوٹ مچارکھی ہے۔ پورے ملک میں گرلز گائیڈ ز کے لیے مختص وسیع و عریض جگہوں پر لینڈ مافیا قبضہ کرکے بیٹھ گیا ہے۔ بلوچستان کی پردہ گروپ ایلیٹ عورتوں نے کیمپ کی جگہ پر اپنا کلب بنا لیا ہے۔ پنڈی اسلام آباد والی جگہیں بھی بڑے لوگوں کے قبضوں میں ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال باقی شہروں کا بھی ہے۔
مجھے یاد ہے ایک بارمیں نے اپنی نانی سے کہا تھا۔ ماں جی آپ ساڈا دیس والا نغمہ جو اٹھتے بیٹھتے آپ کے لبوں سے آہوں کی صورت نکلتا ہے۔ ہمیں سنانابند کردیں۔ یہ میرا ملک اگر نہ بنتا تو آج میں اتنی پڑھی لکھی اور اعتماد سے بھری ہوئی ہوتی جیسی اب ہوں۔ آپ کے دیس جالندھر کے اس سمی پور گاؤں میں گائے بھینسوں کے گوبر تھاپ رہی ہوتی یا پانچ چھ جماعتیں پڑھ کر چولہے چوکوں کی لپائیاں کررہی ہوتی۔ یہ ہمارا دیس ہے۔ اِس کی خیر اور سلامتی مانگا کریں۔ پر میرے دیس کا حشر نشر کردیا ہے خود غرضیوں نے۔ پروردگار مجھے گلہ ہے تجھ سے۔ کیا تھا چند مخلص اور قابل بندے دان کردیتا ہمیں بھی۔