شہر کی مرکزی شاہراہ پربلندوبالا درختوں سے گھری بوسیدگی کی طرف تیزی سے سفر کرتی کلاسیکل طرز کی عمارتوں کا چھوٹا سا جھنڈ آج بھی اسی انداز میں کھڑا تھاجیسا ہم اِسے اسّی نوّے کی دہائی میں دیکھتے آئے تھے۔ اک ذرا رکی تھی کہ اس ابرآلود سہ پہر نے بہت کچھ یاد دلایا تھا۔ سامنے برآمدے سے آگے کمرے میں قاضی جاوید بیٹھتے تھے۔ رُخ بدل کر تھوڑا آگے جانے پراحمد ندیم قاسمی کے کمرے تھے۔ پشت کی سیڑھیاں چڑھ کر ڈاکٹر یونس جاوید سے ملاقات ہوتی تھی۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کی خدمات کا بھی ادارہ احسان مند ہے۔ ہریالیوں سے بھرے بھرے قطعوں سے آگے کچی مٹی کے کمپاؤنڈ سے گزرتے ہوئے علم و ادب کی معتبرترین شخصیتوں کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے رسیا اور نوآموز لکھاریوں کا بھی ایک تانتا بندھا رہتا تھا۔ صبح سے شام تک علم کی خیرات بٹتی۔ قہقے اُبلتے۔ کھانے اور چائے کے دور چلتے۔
آنکھوں میں نمی اُتر آئی ہے۔ وہ سب مشاہیر، علم و ادب کی روشن قندیلیں جن میں بہت ساری گُل ہوگئی ہیں۔ بہت سی ابھی جگمگا رہی ہیں۔ سلامت رہیں وہ اور جگمگاتی رہیں۔ ایک قطار تھی جو خیالوں میں چلی آرہی تھی۔
ثمینہ سیّد اور نوشین نقوی برآمدے کی سیڑھیاں اُتر کر گلے ملی ہیں اور بتاتی ہیں کہ قرآن خوانی ہوگئی ہے۔ تاسف ہوا۔ تاخیر کی وجہ بارش تھی جو ہماری طرف دھواں دھار صورت میں برس رہی تھی اور یہاں ایک چھینٹا تک نہیں پڑا تھا۔
گزشتہ ہفتے ارشاد احمد عارف کے سالے سالی یاسر شمعون اور صوفیہ بیدار کے بہن بھائی کااوپر تلے انتقال ہوگیا تھا۔ عمریں تو کچھ زیادہ نہ تھیں۔ مگر موت کب یہ سب دیکھتی ہے۔ صوفیہ بیدار آج کل یہیں کام کررہی ہے تو قرآن خوانی کا اہتمام بھی یہیں کرلیا کہ مرکزی جگہ کی وجہ سے لوگوں کا آنا آسان تھا۔
اب جب آئی تو پرانی یادوں کے زخم کھل گئے تھے۔ اندر گئی۔ تعزیت کی۔ یہ قاضی جاوید کا کمرہ تھا۔ ان کی کرسی پر کوئی اور صاحب بیٹھے تھے۔ بس یہی دنیا ہے۔ معلوم ہوا تھا کہ حکومتی ایوانوں اور ادب کی دنیا کی بے حد فعال اور معتبر شخصیت شعیب بن عزیز تھوڑی سی دیر کے لیے آئے تھے۔ زیادہ رکے نہیں۔ اپنے چھوٹے بھائی نعمان کی اچانک موت کا گہرا غم کھایا ہے انہوں نے۔ منصور آفاق آگئے تھے۔ مجلس ترقی اردو ادب کا محکمہ آج کل منصور آفاق کی زیر نگرانی ہے۔ منصور صاحب علم شخصیت ہیں۔ اُن کی بے پناہ علمی اور فکری وسعت کا اظہاران کے دیوان میں بہت واضح انداز میں سامنے آیا ہے۔
چند دن پہلے کہیں ماضی میں اسی ادارے کی چھپی ہوئی ایک کتاب"حیات مجدد" نظر سے گزری تھی۔ مطالعے سے یہ افسوسناک بات سامنے آئی کہ یہ کتاب کِسی بھی معیار اور انداز سے ایک باقاعدہ تصنیف کہلانے کی ہر گز مستحق نہیں۔ مختلف تاریخی کتب کے طویل منتخب شدہ اقتباسات کے حصوں کو دو دو چار چار جملوں سے جوڑ کر دو سو بائیس صفحات کی کتاب بنا دی گئی تھی۔ کچھ دکھ اور افسوس اِس بات کا بھی تھاکہ ادارے نے کتب کے انتخاب کے لیے باقاعدہ اچھے اہل قلم کی خدمات حاصل کررکھی تھیں۔ اور ظاہر ہے معاوضے بھی اچھے دئیے گئے ہوں گے۔ تو پھر کیا بات تھی کہ اس ادارے نے اِس کتاب اور یقینا اسی نوع کی کچھ اور کتابیں بھی اپنی مطبوعات میں شامل کیں۔ اپنے اس دُکھ کا اظہار منصور سے کرنے پر انہوں نے کہا کہ یہ بات ان کے علم میں آچکی ہے اور وہ اِ س ضمن میں ماہرین کی رائے سے کوئی لائحہ عمل ترتیب دینے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
ان کے پیش نظر یہ بات بھی ہے کہ ایسے تمام لوگ جو اس طرح کی کتابوں کے انتخاب اور اشاعت میں ماضی میں شامل رہے تھے اور ابھی بھی ادارے سے وابستہ ہیں انہیں احساس دلایا جائے کہ وہ آئندہ ایسی کوتاہی نہ کریں اور اپنے فرض کو احساس ذمہ داری سے نبھائیں۔
منصور روشن دل و دماغ کا انسان اپنے منصوبوں اور مقاصد بارے بہت واضح ہے۔ دو باتیں ان کے پیش نظر ہیں۔ ایک شاندار قسم کا میوزیم جس میں دنیا سے چلے جانے والے ادیبوں کی کوئی نہ کوئی چیز رکھی جائے گی۔ ذاتی استعمال سے لے کر تخلیقات تک۔
دوسرے ادیبوں کے لیے ایک بہترین ٹی ہاؤس کی تعمیر ہے۔ انہیں دکھ تھا کہ ادیبوں کے تو بیٹھنے کے لیے کوئی موزوں جگہ نہیں۔ پاک ٹی ہاؤس تو کاروباری مرکز بنا ہوا ہے۔ یہاں سستی کتابوں کے ساتھ سوونئیرز بھی دستیاب ہوں گے۔ بہترین کھانے پینے کی چیزیں اور ادیبوں کی تقریبات اور اُن کے بیٹھنے کے لیے بہترین سہولتیں میسر ہوں گی۔
باتیں کرتے ہوئے وہ بہت پر عزم تھے۔ اٹھتے ہوئے سیما اور میں نے انہیں دعا دی کہ خدا انہیں ان کے مقاصد میں کامیاب کرے۔ (آمین)