جب افواج پاکستان اور سکیورٹی فورسز نے پاکستان میں دہشت گردوں کو شکست فاش دی تو یہ بھارت اور ان مغربی طاقتوں کے لئے نہایت تکلیف دہ لمحات تھے جن کی خواہش تھی کہ پاکستان میں دہشت گردی کو اس نہج پر لایا جائے جہاں اقوام متحدہ کی مداخلت کا دائرہ کار شروع ہوتا ہے۔ افواج پاکستان نے بے پناہ قربانیوں کے بعد نہایت برق رفتاری سے شورش زدہ علاقوں میں امن بحال کیا ان علاقوں میں اصلاحات متعارف کروا کر قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کیا۔ یہ بات پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں خاکستر کرنے کے لئے سازشیں بننے والوں کو قبول نہ تھی۔ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی فتح شیطانیت کے پجاری اہلیان مغرب، دہلی، پیرس اور واشنگٹن کے لئے مسلسل پریشانی کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ آج میں جس کتاب کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں وہ وطن پرستی اور قربانی کے جذبے کو پاکستانی فوج کے معاشرے اور ملک پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے ہتھیار کے طور پر پیش کر تی ہے۔ کتاب کا پوشیدہ مفہوم عظیم قربانیوں اور شہادتوں کو دانستہ طور پر ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہے۔
ماریہ راشد نے سینڈ فورڈ یونیورسٹی پریس کیلیفورنیا سے چھپنے والی اپنی کتاب Dying to Serve: Militarismکا مقصد پاکستانی فوج کی قربانیوں کو سیاست زدہ کرنا ہے۔ ماریہ نے پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کے لئے جو راستہ اختیار کیا ہے اس کے مقاصد واضح ہیں۔ یہ کتاب ماریہ راشد کی پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے جو سکول آف اورئنٹیل اینڈ ایشین سٹڈیز یونیورسٹی آف لندن کے لئے لکھا گیا۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ یہ ادارہ بائیں بازو کی سوچ اور پاکستان دشمن پراپیگنڈے کے حوالے سے پہلے ہی بدنام ہے۔ انہوں نے فوج سے اپنے تعلقات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی شیطانیت پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی فوج، پاکستان اور مذہب دشمن قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے یا پھر پاکستان دشمن اپنے سپروائزر اور پاکستان کے لبرل حلقوں کی آواز بنی ہیں۔ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا موازنہ سوویت یونین اور امریکہ کی ظالمانہ جنگوں سے کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی فنڈڈ نان سٹیٹ ایکٹرزبھی ایسا کرتے ہیں۔ باوجود اس حقیقت کے کہ پاکستان کا مقابلہ دہشت گردوں کے علاوہ بھاری بھرکم جارح انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ بھی تھا۔
سوویت یونین اور امریکیوں کے حملوں میں بمباری کی گئی تھی جس سے جہادی قوتیں تتربتر ہو کر اپنی پناہ گاہوں میں چھپ گئی تھیں۔ ان مہمات میں اگرچہ میزائل پر ڈیزی کٹر بموں کے ساتھ زمین پر اترے بغیر ہائی ٹیک ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا مگر نتیجہ پھر بھی شکست تھا!!امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کے ساتھ ان طالبان رہنمائوں کی تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں جن میں سے اکثریت نے گوانتانا موبے میں انسانیت سوز سلوک بھی برداشت کیا۔ یہ تصاویر پکار پکار کر بتا رہی ہیں کہ دنیا کے سب سے طاقتور امریکی صدر کی امن پالیسی بھی ایک طرح سے شکست سے دوچار ہوگئی ہے۔ مگر پاکستان کی آپریشنل سٹرٹیجی مختلف تھی۔ پاکستانی حکمت عملی میں دہشت گردوں کو گھیرا گیا ان کو محدود کیا گیا اور آخری مرحلے میں پاکستانی فوج نے زمین پر اتر کر ان کا صفایا کیا۔
اس طرح پاکستان دنیا کے مشکل ترین محاذ پر عملی اقدامات کی وجہ سے کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ کیا افواج پاکستان نے جانی نقصان برداشت نہیں کیا؟ کیا اس جنگ میں افواج پاکستان کے جوانوں اور افسروں کی شہادت کا تناسب 1.5نہیں رہا؟ یہی وہ قربانیاں ہیں جو دہشت گردی کی جنگ میں سوویت یونین اور امریکہ کے مقابل میں پاکستان کی کامیابیوں کو منفرد کرتی ہیں۔ نیٹو اور سوویت یونین کا ایک طریل عرصے تک زمین پر قدم جمائے رکھنے اور سیاسی اتفاق رائے میں ناکامی ہی مغرب کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی کی دو وجوہات ہیں۔ یہی وہ کامیابی ہے جس کو حال ہی میں کوالیفائی کرنے والی سائیکالوجسٹ نے من چاہے معانی پہنانے کی کوشش کی ہے جو ملٹری سوشیالوجی اور میدان جنگ کا تجربہ تک نہیں رکھتیں اور ملٹری سوشیالوجی میں اپنی خواہشوں کے رنگ بھرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کے تمام تر دلائل عمل اور ردعمل کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہیں اور ان کی تحقیق علمی مواد سے بھی عاری ہے ان کے دلائل اور انٹرویوز نہ صرف تصوراتی اور جعلی ہیں بلکہ ان کے سپروائزر نے بھی ان کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش تک نہیں کی۔ ان کی پہلی دلیل کا ہی تجزیہ کر لیتے ہیں۔
محترمہ دلیل پیش کرتی ہیں کہ پاکستانی ملٹری مقابلے میں ہلاکتوں کے لئے خاص طور پر اسلامی شہادت کے تصور کو پاکستانی معاشرے اور ملک پر تسلط قائم کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے مگر اپنے تھیسس میں یہ سوال گول کر گئیں کہ پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ کس نے مسلط کی؟ ۔ اپنی کمزور اور خودساختہ دلیلوں سے وہ خود ہی پاکستانی فوج اور پاکستانیوں کو نشانے پر رکھ لیتی ہیں جو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ ماریہ راشد کا یہ کہنا کہ فوج کے پاکستانی معاشرے میں تصور اور وفاداری کو پاکستانی فوج کے حکومت میں آنے اور جانے کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ماریہ کی یہ دلیل اس لئے بھی باطل ہو جاتی ہے کہ 2002ء کے بعد پاکستان میں مسلسل جمہوریت ہے اور پاکستان کی دس پارٹیاں اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کامیابی سے فوج کے پانچ سربراہوں کی تقرریاں یہاں تک کہ توسیع بھی کر چکی ہے۔ رہی مارشل لاء کی بات تو دنیا کے بہت سے ملٹری سوشیالوجسٹ جیسے کہ سموئیل ہٹنگٹن، سٹیفن کوہن، مورس جانووٹز اور الماس پرل مٹر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام، قومی ترقی کے حوالے سے مارشل لاء کی حمایت کر چکے ہیں اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستانی فوج کسی طرح بھی اقتدار کی حریص نہیں۔ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ کیا ماریہ نے کبھی ملٹری سوشیالوجی پڑھی ہے؟ ان کی بغیر تجربہ کے جنگی موضوعات پر ہلہ بولنے کی خواہش اور بچگانہ نفسیات تحقیق کے مختلف نتائج کی وجہ بن رہی ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معاملہ ہے تو ماریہ کو بروس ریڈال کی تصنیفات کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے جس نے جہاد افغانستان میں امریکی جنگ اور پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے متعلق بہت تحقیق کے بعد لکھا ہے۔
ماریہ نے اپنی کتاب میں کہیں بھی اس امریکی پالیسی پر تنقید نہیں کی جس کے تحت افغان جنگ کے لئے امریکہ نے مدرسوں میں مخصوص مواد مسلط کیا تھا کہ جہاد کی آگ کو بڑھایا جا سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں وہ کون سا ملک ہے جو شہادت کے جذبے سے عاری ہے، جہاں سپاہیوں کی قبروں کی قومی سطح پر تکریم اور شہادت کی تحسین نہیں کی جاتی اور عزت و وقار کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ دنیا بھر میں ملک وملت کے لئے جان قربان کرنے والوں کو عزت و وقار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے پاکستان دنیا سے ہٹ کر کچھ بھی نیا نہیں کر رہا تو پھر پاکستان میں شہیدوں کو تکریم دپنے پر اعتراض کیوں؟ دنیا بھر میں فوجی تقریبات فوج کا خاصہ رہی ہیں جن میں قومی پریڈ اور شہیدوں کی تحسین کی جاتی ہے مگر دنیا بھر کی تقریبات مصنفہ کی نظر سے اوجھل رہیں اور ان میں ان کو کوئی خرابی نظر نہیں آئی۔
فوج میں بھرتی کے حوالے سے ماریہ نے پوٹھوہارکا ذکر کیا ہے جو برطانوی راج کے دوران فوج کی بھرتی کا مقام رہا ہے۔ یہ کولونیل دور کا سچ ہے۔ پاکستان کی آج قومی فوج ہے۔ پاکستانی فوج میں رضا کارانہ بھرتی ہوتی ہے۔ 30فیصد سندھ اور بلوچستان کے جوان پاکستانی فوج کا حصہ ہیں۔ پاکستان کے شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کی شرح 10فیصد ہے۔ سب سے اہم کہ ہر نسل علاقے اور مذہب کے لوگ پاکستانی فوج کا حصہ ہیں۔ ان میں پارسی بھی ہیں، عیسائی اور سکھ بھی اور ہندو بھی۔ اس میں کوئی حیرانی والی بات نہیں کہ بروس ریڈال نے کہا ہے کہ پاکستان کبھی ناکام نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی فوج ایک خاندان کی طرح ہے اور عوام کے دلوں پر راج کرتی ہے۔ مصنفہ نے فوج کے قومی کردار کو نظر انداز کیا ہے اور ایسا صرف اپنے ماسٹرز کی خوشنودی کے لئے کیا گیا، انہوں نے اسی تھالی میں چھید کیا جس میں کھاتی رہی ہیں۔
بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ کچھ عناصر فوجی پس منظر رکھنے والی نوجوان لڑکیوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے، سازشوں میں مصروف ہیں تاکہ پاکستان کی فوج کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جا سکے۔ میرے خیال میں نوجوان مصنفہ کا شمار بھی ایسے ہی خود ساختہ لبرل طبقے میں کیا جا سکتا ہے جو پاکستانی فوج کو سطحی انداز میں دیکھتے ہیں۔ غیر مصدقہ مواد خود یونیورسٹی آف لندن کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ سینڈ فورڈ یونیورسٹی پاکستان کے خلاف ہائی برڈ جنگ کا حصہ بن رہی ہے۔