49سال پہلے بھارت نے کھلے عام پاکستان کے خلاف جارحیت کی اور پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ دیا۔ 2020ء میں بھی بھارت انفرادی خواہشات اور بین الاقوامی سازشوں کے ذریعے پاکستان پریورش کر رہا ہے۔ اس بار بھارت پاکستان پر حملوں کے لئے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات امریکہ اور اسرائیل کے ذریعے سازشوں کے تانے بانے بن رہا ہے۔ 49سال پہلے اور آج کے حالات میں فرق بس اتنا ہے کہ آج پاکستان کے پاس پہلے سے مضبوط اور جنگ آزمودہ فوج اور جوہری حصار موجود ہے۔ بدقسمتی سے اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود کرپٹ سسٹم اس صلاحیت کو غیر موثر کر رہا ہے۔ پاکستان کا نظام عدل ابھی اصلاحاتی مراحل طے کر رہا ہے۔ سیاست دان ذاتی مفادات کے اسیر اور پاکستان کی افسر شاہی گرد آلود ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ پاکستان کا مین سٹریم میڈیا 1971ء کی طرح آج بھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لتے لے رہا ہے۔
یہ بھی پاکستانی صحافی انتھونی میکر نہس ہی تھا جس نے سنتا ہار نتور میں بہاریوں کے قتل عام کو پاکستانی فوج کی طرف سے بنگالیوں کے قتل کے طور پر پیش کیا اور پاکستان کا امیج مسخ کر کے پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام اورتنہا کر دیا۔ اسی طرح اور اتنا ہی برا طرز عمل ڈان لیکس کی صورت میں سامنے آیا۔ بھارتی فوج نے پاکستان میں مداخلت کا آغاز 22نومبر کو شروع کی جبکہ اعلان جنگ 13دسمبر کو ہوا تو پاکستان کے مشرقی پاکستان میں فوجیوں کی تعداد بمشکل 28ہزار کے لگ بھگ تھی جو 46سو کلو میٹر سرحد پر پھیلی ہوئی تھی، جس کو انتہائی محدود فضائیہ آرمر سپورٹ حاصل تھی۔ مقامی آبادی کو تبتین لبریشن آرمی مکتی باہنی کی صورت میں مشتعل کر رہی تھی۔ پاکستانی فوج پر جس قتل عام کا الزام لگایا جاتا ہے ان میں اکثریت بہاریوں اور پاکستان نواز بنگالیوں کی تھی۔ جب بھی مرنے والوں کے ڈی این اے لئے جائیں گے سچ آشکار ہو جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 1971ء میں پاکستان کے داخلی سیاسی حالات بالخصوص اور بین الاقوامی معاملات بالعموم پاکستان کی تقسیم کے لئے ترتیب دیے گئے تھے۔ بجائے اس کے کہ سیاسی مذاکرات کا عمل شروع کیا جاتا اور شیخ مجیب الرحمن سے اس کے چھ نکات پر بات کی جاتی، پاکستان کی عسکری قیادت نے ذوالفقار علی بھٹو کے دبائو میں مشرقی پاکستان میں مارچ 1971ء میں آپریشن کر کے جلتی پر پانی ڈالنے کے بجائے تیل ڈالا۔ اس وقت یحییٰ خان مارشل لاء کے مشیروں اور سول بیوروکریسی کے حصار میں تھے۔ جنرل رحیم اور میجر جنرل غلام عمر ایسے رابطہ کاروں نے یحییٰ خان کے گرد فصیل بنا رکھی تھی۔ فوج کو سیاسی انتشار اور افراتفری میں دھکیل دیا گیا تھا۔ اس لئے فوج کے پاس اس بحران کا کوئی حل ہی موجود نہ تھا۔ یہ خیال کہ مغربی پاکستان کے وسائل مشرقی پاکستان ہڑپ کر جاتا تھا آج غلط ثابت ہو چکا ہے۔ مداخلت کے ان برسوں میں بنگلہ دیش کی معیشت مغربی پاکستان سے بہت بہتر تھی۔ ایوب خان کے دور میں ملک کے دونوں حصوں میں معیشت فروغ پائی تھی جو بعد میں آہستہ آہستہ رکتی گئی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان میں 1969ء کے بعد معاشی استحکام کی مثال نہیں ملتی۔ المیہ تو یہ ہے پاکستان نے ہمیشہ آمریت میں ہی ترقی کی ہے، جمہوری ادوار میں سیاسی اشرافیہ لوٹ مار میں مصروف رہی ہے۔ ذاتی مفادات کے لئے ریاستی اداروں کو تباہ کیا گیا۔ پاکستان کو 1969ء میں جن حالات کا سامنا تھا آج بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔
مغربی پاکستان میں کسی کو یہ احساس ہی نہ تھا کہ بنگالی سیاست اور تاریخ کا بہتر شعور رکھتے تھے اوپر سے مشرقی پاکستان کے رہنمائوں کو کم تر محب الوطنی کے طعنوں نے توڑ کر رکھ دیا۔ 1969ء میں ایوب خان کے خلاف بغاوت کی ترجیحات بھی مختلف تھیں۔ مشرقی پاکستان کے لوگ خود مختاری کے لئے جدوجہد کر رہے تھے جو 1958ء میں سہروردی نے تجویز کی تھی جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے گارڈ فادر کے خلاف احتجاج کے لئے تاشقند معاہدے کا کارڈ کھیل رہے تھے۔ انہوں نے بائیں بازو کے نظریات کی نمائندگی کی۔ جن کو انہوں نے خود سکندر مرزا اور ایوب خان کے ایما پر 50کی دہائی میں دبا دیا تھا۔ ملک مشرقی اور مغربی پاکستان کے دو رہنمائوں مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی صورت میں دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا اور یہ اختلاف اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ دونوں پارٹیوں کی قیادت کے بھی کنٹرول میں نہ تھے۔ شیخ مجیب کو بھارت اور روس کی حمایت حاصل تھی جبکہ بھٹو کو روسی قیادت نے نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا حالانکہ تاشقند میں بھٹو کی روسیوں سے دوستی ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو تاشقند معاہدے کے بعد ایوب خان کا اعتماد کھو چکے تھے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ تاشقند کے وفد میں مختلف الخیال افراد شامل تھے جس کی وجہ سے ایوب خاں تنہا ہو گئے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو اور روس کے وزیر خارجہ کے درمیان تعلقات کی گرم جوشی دیدنی تھی۔ جس کا نتیجہ 1969ء میں بھٹو کی طرف سے اپنی پیپلز پارٹی کے قیام کی صورت میں برآمد ہوا حالانکہ بھٹو کی نئی پارٹی اور نظریہ ان کی ماضی کی سیاست سے متضاد تھا۔ جب 50اور 60کی دھائیوں میں بھٹو جاگیردار طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے سکندر مرزا اور ایوب خاں کے کہنے پر بائیں بازو کے لبرل کو کچلنے میں بھر پور کردار ادا کیا تھا۔ 1969ء میں پاکستان کے امریکہ سے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا شیخ مجیب کے حوالے سے غیر لچکدار رویہ تباہی کا سبب بنا۔ 1971ء کے واقعات خواہشوں کے اسیر بھٹو کی تواقعات سے مختلف تھے۔ خلیج بنگال میں روسی آبدوزوں کی موجودگی نے امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کو خوف زدہ کر دیا تھا جسے بھٹو غداری سمجھتے تھے۔ 1973ء میں بھٹو نے بائیں بازو سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اسلامی بلاک تشکیل دیا اور کیپٹیل ازم کی طرف لوٹ گئے۔ بھٹو کی 1965ء سے 1971ء تک کی ذاتی مفادات کے لئے سیاست نے وفاق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ 1971ء میں بھٹو نے پاکستان کی معیشت کا پہیہ ہی الٹا گھما دیا جو آج تک سیدھا رواں نہیں ہو سکا۔