پاکستان کراچی کے نیو کلیئر پاور پلانٹ میں ایندھن بھرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اگر تمام مراحل خوش اسلوبی سے طے ہو جاتے ہیں تو اس طرح کے تین مزید پلانٹ کراچی اور چشمہ کے مقامات پر لگائے جائیں گے۔ پاکستان کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ بھارت کو جوہری سپلائی گروپ کی طرف سے سہولیات کے معاہدے اور پاکستان کو اس سہولت سے محروم رکھنے کے باجود پاکستان اپنے پرامن جوہری پروگرام کو چین کی مدد سے بڑھا رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان چین کے تعاون سے عالمی معیارات کے مطابق اپنے پرامن جوہری پروگرام کو ترقی دینے اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے حصول میں کامیاب ہوا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اب پاکستان فورتھ جنریشن ہائبرڈ پاور ری ایکٹر ٹیکنالوجی حاصل کر چکا ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ موثر، محفوظ اور کسی بھی ہنگامی حالت میں آسانی سے بند کی جا سکتی ہے، چرنوبل اور فوکوشیما ایسے حالات سے بچا بھی جا سکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو دو مقاصد، بحری جہازوں کے آئس بریکر اور جوہری آبدوزوں کے ایندھن، میں بھی استعمال کیا جا تا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں پاکستان کے پاس بہت سے آپشن کھلے ہیں۔ پریشرائزڈ واٹر ری ایکٹر ابتدائی طور پر جوہری آبدوزوں کے لئے بنائے گئے تھے بعد میں ان کو جوہری پیداوار کے لئے استعمال کیا جانا شروع ہوا۔
دنیا کے اکثر ممالک میں سیکنڈ جنریشن ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے۔ اس وقت ترقی یافتہ ممالک، جن میں امریکہ، روس، فرانس اور جاپان شامل ہیں، بھی اکثر مقامات پرتھرڈ جنریشن ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں جبکہ چرنوبائل اور فوکو شیما میں تھرڈ جنریشن ٹیکنالوجی استعمال کی گئی کیونکہ تھرڈ اور فورتھ جنریشن ٹیکنالوجی کا ڈیزائن موثر اور محفوظ ہے۔
امریکہ، روس، فرانس، چین اور جاپان کے بعد پاکستان یہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے۔ مختصر یہ کہ جوہری ایندھن سے ری ایکٹر پریشر ویسلز میں کنٹرولڈ ماحول میں نیوٹران توڑے جاتے ہیں جن سے حدت پیدا ہوتی ہے۔ تھرمل کلیڈنگ پریشر ائزڈ وائر انتہائی درجہ حرارت پر بھی بخارات میں تبدیل نہیں ہونے دیتی اور پانی ہائی ڈگری 315سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور 2250پی ایس آئی پر بھی بخارات میں تحلیل نہیں ہوتا۔
یہ ری ایکٹر میں نیوٹران کو سست رکھتا ہے، درجہ حرارت کم رکھتا ہے جب یہ بہت ہی گرم پانی سینکڑوں ہزاروں ٹیوبز میں سے گزرتا ہے تو بھاپ میں تبدیل ہو جاتا ہے اورپاور ٹربائن کو گھماتا ہے جس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ حرارت کی تبدیلی کا یہ عمل دونوں محلولوں کے باہم اتصال کے بغیر ہوتا ہے۔ نالیوں کو ٹھنڈا رکھنے والے پانی سے ریڈیو ایکٹو بنتے ہیں، ٹربائن سے گزرنے کے بعد یہ پانی اور بھاپ ٹھنڈے ہو جاتے ہیں تو ان کو دوبارہ سٹیم جنریٹر میں بھیج دیا جاتا ہے۔
فیول لوڈنگ ایک ایسا عمل ہے، جو ہائی پریشر ائزڈ وائر ری ایکٹر سے پہلے شروع کیا جاتا ہے، میں ری ایکٹر بنانے کے لئے افزدہ یورینیم ڈائی آکسائیڈ کو جلایا جاتا ہے۔ اس عمل سے افزودہ یورینیم سے سخت سرامک پیلٹس یاراڈز حاصل ہوتے ہیں ان راڈز پر وائر کو نیم میٹل جس کو نچلے حصے کو ہیلم سے بھرا ہوتا ہے ان راڈز کو جوڑ کر مین ری ایکٹر کور بنائی جاتی ہے اس طرح ری ایکٹر کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
ایسے ری ایکٹر بہت کم خرچ میں 15فیصد یورینیم کو موثر اور محفوظ طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے گرد مین کور میں پریشر ائزڈ وائر گھوم رہا ہوتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی چرنوبائل اور فوکو شیما جاپان اور حالیہ تھرڈ جنریشن ٹیکنالوجی سے بہت بہتر ہے۔
اس لئے یہ انقلابی ٹیکنالوجی بحری جہازوں میں آئس برگ توڑنے اور آبدوزوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ پاکستان نے گو یہ پراجیکٹ دھائیوں پہلے شروع کئے تھے مگر ایندھن بھرنے کی صلاحیت کا حصول اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستان ری ایکٹرز ٹیکنالوجی کی جدید سطح پر پہنچ چکا ہے۔ مستقبل میں اس طرح کے کئی ایک پاور پلانٹس ملکی تعمیر و ترقی کے لئے سستی بجلی فراہم کر رہے ہوں گے۔
پاکستان اپنے سول اور عسکری جوہری منصوبوں میں پلوٹونئیم جبکہ بھارت یورینیم ذرائع کی کمی کی وجہ سے تھیوریم استعمال کر رہا ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد بھارت کے جوہری سائنسدان تھیوریم سے پلوٹونیم آئسوٹوپ حاصل کرتے ہیں بھارت کی اس سست رفتاری نے ہی پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے وقت فراہم کیا۔ بھارت اپنی تھیوریم بیسڈ فیول کی صلاحیت بڑھا رہا ہے۔ 5لاکھ 18ہزارٹن سمندر کی ریت سے عام درجے کی لوگریڈ یورینیم کے پروٹو ٹائپ بناتا ہے۔ بھارت کا طویل المدتی منصوبہ تھیوریم سے بھاری پانی بنانے تک کی صلاحیت حاصل کرنا ہے۔ جس کا پہلا مرحلہ بھاری پانی کے ری ایکٹر لگانا ہے جن میں قدرتی یورینیم بطور ایندھن استعمال کی جا سکتی ہے تا کہ اس سے حاصل شدہ پلوٹونیم کو ابتدائی طور پر بجلی کی پیداوار کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ دوسرے مرحلے میں نیوٹران ری ایکٹر کا استعمال ہو گا جس میں تھیوریم کے ساتھ یورینیم بھی استعمال کی جا سکے۔ تاکہ اعلیٰ معیار کے پلوٹونیم حاصل ہو سکے۔
2017ء میں بھارت نے حکومتی سرپرستی میں کام کرنے والی نیو کلیئر پاور کارپوریشن کو بھاری پانی کے 10 ری ایکٹر بھارت میں تیار کرنے کا گرین سگنل دیا تھا۔ بھارت کو نیو کلیئر سپلائی گروپ کی طرف سے نیم افزودہ یورینیم عالمی مارکیٹ سے حاصل کرنے کی سہولت بھی میسر ہے۔ بھارت روس سے تھرڈ جنریشن کے ہلکے پانی کا ری ایکٹر حاصل کر کے کندن کولام میں پاور پلانٹس میں لگا چکا ہے جن میں سے اکثر پرانی ٹیکنالوجی پر مشتمل ہیں اور ان کا پاکستان کے ہائو لانگ ٹیکنالوجی سے تقابل نہیں۔
تیسری دنیا کے ترقی پذیر ملک پاکستان کی کامیابیوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ سٹیٹ آف آرٹ ٹیکنالوجی اور اس میں جدت کے اہداف صرف اور صرف سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ادارے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان اٹامک انرجی اور اس کے زیر انتظام چلنے والے تمام ادارے پاکستان کی تینوں مسلح افواج کی زیر نگرانی میں کام کر رہے ہیں۔
جنگی جہاز بنانے، ٹینک بنانے والی فیکٹریاں اور سیٹ آف آرٹ کمیونی کیشن سہولیات اور میزائل پروگرام ایسے اہداف سب کچھ سرکاری اداروں نے نہایت ہی کم بجٹ میں حاصل کیے ہیں، ان پاکستانی اداروں نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ جبکہ پاکستان کی معیشت ان اداروں کے ہم قدم چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
پاکستان آٹو موبائل کارپوریشن، پاکستان سٹیل ملز، پاکستان ریلوے اور پی آئی اے ایسے اداروں سے قوم نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں مگر یہ تمام ادارے بد انتظامی لالچ اور بدعنوانی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔