جمعرات کو دنیا بھر میں معذور افراد کا دن منایا گیا۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی کے 15 فیصد لوگ کسی نہ کسی اعتبار سے معذور ہیں۔
دسمبر 1975میں پہلی بار ار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بارہ نکات پر مشتمل Declaration on the Rights of Disabled جاری کیا۔ اس ڈکلیریشن کے تحت تحت تمام ممالک کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ وہ معذور افراد کو وہ تمام حقوق دلانے کا اہتمام کریں جو صحت مند افراد کو حاصل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی تحقیق کے مطابق پیدائشی یا حادثاتی طور پر معذور ہونے والے افراد کے علاوہ دنیا بھر میں 8 فیصد ایسے افراد بھی ہیں جو ستر سال کی عمر میں یا اس کے بعد طویل العمری کی وجہ سے معذوری کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں۔ معذور افراد کی زندگی کا ایک دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان ایک ارب انسانوں میں سے پچیس فیصد خواتین اور بچے زندگی کے مختلف مراحل میں زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی دادرسی کا ریاستی سطح پر مناسب انتظام نہ ہے۔
یونیسکو بتاتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں 90 فیصد سے زائد معذور افراد کی تعلیم کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ اس حوالے سے اگر پاکستان میں بسنے والے معذور شہریوں کی صورتحال کا اندازہ لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری کل آبادی کا ایک فیصد ایسے افراد پر مشتمل ہے جو کسی نہ کسی طرح کی جسمانی اور ذہنی معذوری کا شکار ھیں۔ ان ایک فیصد میں سے ایک چوتھائی افراد شدید معذور ہیں۔ ان افراد کو مفید شہری بنانے کے لیے لیے ترجیحی اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے 1973 کے آئین کے تحت معذور افراد کو دوسرے شہریوں کی طرح تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں لیکن ان افراد کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ابھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں پہلی بار1981 میں قومی سطح پر پر اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ سن 2002 میں پہلی قومی پالیسی بنائی گئی۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل معذور آبادی میں سے 55 فیصد سے زائد افراد پنجاب میں رہتے ہیں 28۔ فیصد سے زائد صوبہ سندھ میں، گیارہ فیصد سے زائد صوبہ خیبر پختونخوا میں اور ساڑھے پانچ فیصد سے زائد صوبہ بلوچستان میں رہتے ہیں۔ معذور افراد کو سہولتیں فراہم کرنے اور انھیں معاشرتی اور معاشی اعتبار سے تحفظ دینے کے لیے انیس سو اکاسی میں آئینی تحفظ فراہم کیا گیا قومی پالیسی تشکیل دی گئی۔
پاکستان بیت المال ملک کے خصوصی افراد کا معیار زندگی بہتر بنانے اور انھیں معاشرے کا باعزت رکن بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھا رہا ہے۔ احساس پروگرام ملکی تاریخ کا وہ واحد جامع اور موثر منصوبہ ہے جس میں غربت سے وابستہ ہر پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہے۔
انصاف ہیلتھ کارڈ کے ذریعے علاج معالجہ کی فراہمی، مددگار آلات، ویل چئیرز، آلات سماعت کی فراہمی، سرکاری ملازمت اور ہائوسنگ اسکیموں میں کوٹہ مختص کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ پاکستان بیت المال کی طرف سے پہلی مرتبہ کسٹمائزڈ ویل چئیرز کی فراہمی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی تکنیکی معاونت سے شروع کیے جانے والے اس منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر 9 اضلاع کو منتخب کیا گیا ہے۔
پاکستان بیت المال کی طرف سے مصنوعی اعضاء، آلات سماعت، ایلبو کرچز اور سفید چھڑیوں کی فراہمی کو بھی ممکن بنا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خصوصی افراد کی معاشی بحالی کے لیے مالی اعانت بھی کی جاتی ہے۔ پاکستان بیت المال کی طرف سے ایسے متعدد مریضوں کے علاج کو ممکن بنایا جا چکا ہے جو Spinal Cord Injury کے باعث مفلوج ہو چکے تھے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ بولنے اور سننے سے محروم بچوں کو کاکلئر امپلانٹ کی فراہمی بھی بیت المال کے ذریعے کی جاتی ہے۔
پاکستان بیت المال WHO کے تعاون سے differently abled persons کو جدید طرز کی Assistive Devices مہیا کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت سے منظور شدہ 25 اقسام کے جدید مددگار آلات۔ سننے اور بولنے سے محروم بچوں کو کم سنائی دینے والے اور ضعیف افراد کے لیے آلات سماعت لگائے جا رہے ہیں۔ نظر انداز شدہ ڈیرہ بگٹی اور فاٹا کے دہشت گردی سے متاثرہ افراد کو کار آمد شہری بنانے کے لیے مصنوعی اعضاء اور اس کے ساتھ ساتھ معذور افراد کی جسمانی ساخت اور معذوری کی نوعیت کے مطابق ڈیزائن کردہ جدید طرز کی کسٹمائزڈ ویل چیئرز افراد کو ان کی دہلیز پر فراہم کیے جاتے ہیں۔
بلاشبہ معذور افراد کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس سلسلے میں بیت المال کی کارکردگی قابل تحسین ہے تاہم اب بھی کئی پہلووں کی طرف مزید توجہ کی ضرورت ہے، خاص طور پر موثر قانون سازی سب سے اہم ہے تا کہ سست روی کے عمل کو گرفت میں لایا جا سکے۔ اس کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہماری پارلیمنٹ میں بھی معذوروں کے لیے خواتین کی طرز پر خصوصی نشستیں رکھی جائیں تا کہ دو کروڑ سے زائد آبادی کے یہ افراد بھی قانون سازی کے عمل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔