ملک کے سیاسی نظام کا آیندہ کا منظر نامہ کیا ہو گا؟ یہ ہے وہ بحث جس پر مختلف طبقہ فکر آج کل اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ بات کس قدر افسوسناک ہے کہ تہتر سال گزرنے کے باوجود ہمارا سیاسی نظام مستحکم بنیادیں حاصل نہ کر سکا۔
میثاق جمہوریت کے بعد اور جنرل مشرف کی روانگی کے بعد سے ایسا لگتا تھا کہ اب ملک میں دو پارٹی نظام اپنی جڑیں مضبوط کر لے گا اور دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی طرح یہاں بھی سیاست دو بڑی جماعتوں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے گرد گھومتی رہے گی۔ یہ سیاسی جماعتیں ماضی کی غلطیاں نہیں دوہرائیں گی اور یوں پاکستانی عوام کو ایک مستحکم سیاسی نظام مل جائے گا۔ لیکن بد قسمتی سے ان دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین آصف علی زرداری اور نواز شریف صاحب نے ماضی سے کچھ سیکھے بغیر ایسے اطوار اختیار کیے کہ اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھوں اور فیصلوں کی نذر ہو گئے۔ ان جماعتوں کی قیادت نے اپنے ساتھی تجربہ کار اور زیرک سیاستدانوں کے مستقبل کو بھی دائو پر لگا دیا۔
ہمارے سیاسی قائدین اپنے کردار اور گڈگورننس سے حالات کو بہتر کرنے میں کیوں کامیاب نہ ہو سکے؟ اس کا جواب صرف اور صرف ایک ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے سربراہوں کی ترجیح نمبر ایک پاکستان اور عوام کبھی نہ تھے بلکہ ان کی اولین ترجیح صرف اور صرف اپنا اقتدار مستحکم کرنا تھا۔
آصف علی زرداری اور ان کی ٹیم نے پانچ سال کے دوران جو فیصلے کیے، وہ کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی اور قومی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی اندرون سندھ کی پارٹی بن گئی، وہ اپنے7 سالہ دور اقتدار اور پھر سندھ میں حکومت کے موجودہ پانچ سال کے دوران بھی خود کو Reviveنہ کر سکی۔ ن لیگ جسکے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ پیپلز پارٹی کی نسبت بہتر گورننس کر سکتی ہے، ترقیاتی منصوبے بنا سکتی ہے اور ایک مستحکم سیاسی جماعت کے طور پر مستقبل میں بھی اپنا قومی کردار احسن طریقے سے ادا کر سکے گی لیکن شومئی قسمت کہ ایک طرف تو اسے عمران خان ٹف ٹائم دے رہے تھے، دوسری طرف پاناما کا چھاتہ بردار حملہ اس جماعت کے حقیقی قائد نواز شریف کے اوسان خطا کر گیا۔
اسے اللہ کی پکڑ کہیں یا نواز شریف کی سمجھ میں کمی، وہ پاناما کیس سے خود کو نہ بچا سکے۔ ابتدائی ایام میں ایسے وافرمواقع موجود تھے کہ وہ ایک قدم بیک فٹ پر چلے جاتے یا پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کا سہارا لے لیتے تو انھیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اب سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ دونوں تجربہ کار سیاسی جماعتیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا شیرازہ بکھرنے کو ہے۔ دہائیوں کے اس کھیل میں کسی کے ہاتھ کچھ نہ آیا سوائے آنکھ مچولی شرمندگی اور بدنامی کے۔
اب رہا سوال تحریک انصاف اور دوسری سیاسی جماعتوں کا۔ تحریک انصاف کے سوا باقی کوئی سیاسی جماعت اس وقت سکہ رائج الوقت نہیں ہے دیگر کے سب پارٹیاں چھوٹے چھوٹے گروپوں کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ تحریک انصاف بظاہر نمایاں ہو کر سامنے آ رہی ہے لیکن بد قسمتی سے اس پارٹی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ملک میں اخلاقی اور سیاسی طور پر ایک مستحکم نظام دے سکے۔
ذرا ملاحظہ تو کیجیے کہ نیا پاکستان بنانے کے دعویٰ دار اس پارٹی کے پاس کون کون لوگ ہیں جو نئے پاکستان کی تعمیر میں مستری کا کام کر رہے ہیں۔ جناب شفقت محمود، شاہ محمود قریشی، جناب جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان، اعظم سواتی، وغیرہ وغیرہ۔ نیا پاکستان بنانے کی دعویٰ داراس پارٹی نے نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے جن ہستیوں کا انتخاب کیا ہے ان میں پیپلز پارٹی کے 13، ق لیگ کے8، ایم ایم اے کے 3، مسلم لیگ ن کے 4 اور ایم کیو ایم شامل ہے۔
اس کے علاوہ مشیروں اور ایڈوائزرز کی فوج ظفر موج بھی متبادل کابینہ کا کام سرانجام دے رہی ہے۔ ہمارے موجودہ سیاسی نظام کی دلچسپ اور پیچیدہ حقیقت یہ ہے کہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور عمل درآمد کرنیوالے چہرے کوئی اور ہوتے ہیں۔ دو عملی کبھی بھی کسی بھی سیاسی نظام کو نہ تو مستحکم بنا سکتی ہے اور نہ ہی عوام کی فلاح و بہبود کے کسی بھی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے۔ بلاشبہ نواز شریف کا بیانیہ "ووٹ کو عزت دو" جمہوریت کی روح ہے لیکن "بہت دیر کی مہرباں آتے آتے" یا " اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت" کے مصداق پاکستان کے زمینی سیاسی حقائق میں اس کی پذیرائی کم ازکم مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی۔
ہماری تاریخ کا 70 سالہ تجربہ بتا رہا ہے کہ جب تک ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت باہم مل کر اتفاق رائے سے پاکستان کے سیاسی نظام کی حدود و قیود پر متفق نہیں ہوتی اور آئین پاکستان میں ان حدود کا تعین نہیں کیا جاتا اس وقت تک ہم سیاسی نظام کو مستحکم نہیں کرسکتے۔ آج وقت نے ثابت کردیا ہے کہ اس صورت حال حال سے ملک کو نکالنے کے لیے قومی ڈائیلاگ کا آغاز کرنا ضروری ہے۔
اس ڈائیلاگ کی بنیاد پر آئینی ترامیم کے ذریعے ہی سیاسی نظام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگر سیاسی نظام اسی طرح دو عملی کا شکار یا معلق رہا تو حالات کسی کے بھی کنٹرول میں نہ رہیں گے۔ ڈائیلاگ کے عمل میں جتنی بھی دیر کی جائے گی حالات اتنے ہی پیچیدہ ہوتے جائیں گے، قومی ڈائیلاگ کن امور پر اور کہاں ہو اس پر اظہار خیال انشا اللہ آیندہ۔