کورونا سے کیسے بچا جائے؟ یہ وبا کب ختم ہوگی؟ ان سوالات پر تو گزشتہ سات ماہ کے دوران دنیا بھر کے دانشور’سائنسدان۔ ڈاکٹر۔ محقق اور حکمران سوچ بچار کر کے تھک گئے ہیں۔ اب تو دنیا کا ہر انسان اس تشویش میں مبتلا ہے کہ وہ اس وبا کے ہوتے ہوئے اپنے عوام اور ملک کو کس طرح چلائے۔
اس وبا کی تباہ کاری کا سب سے بڑا اثر معیشت پر پڑا ہے۔ کورونا کی وبا نے موجودہ عالمی مالیاتی نظام کی "اوورہالنگ"کا بگل بجا دیا ہے۔ عالمی معیشت ہو یا کسی ایک ملک کا معاشی نظام اس کی اوورہالنگ کیے بغیر کسی بھی عالمی یا علاقائی مالیاتی نظام کاServivalمشکل ہے۔ کورونا کی وبا نے گلوبلائزیشن کے مغربی تصور پر کاری ضرب لگا دی ہے۔ ایک طرف تو اس وبا نے ہر ملک کی معیشت پر دبا بڑھایا ہے تو دوسری طرف عالمی گروتھ سسک رہی ہے۔ معیشت سکڑنے کی وجہ سے ایک طرف تو پیداواری انڈیکس گھٹ رہا ہے اور دوسری طرف لوگوں کے روزگار ختم ہورہے ہیں۔
کورونا نے عالمی معاشی نظام اور ورلڈ آرڈر کو یہ کھلا پیغام دے دیا ہے کہ اب دنیا کے کسی ملک یا چند ممالک کے گروپ کو واحد پیداواری یونٹ یا فیکٹری نہیں بننے دیا جائے گا۔ امریکا یورپ یا چین کوئی اور ملک پوری دنیا کا معاشی ٹھیکیدار نہیں بن سکے گا۔ ہر ملک کو اپنے ملک کی غذائی اور دوسری اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے وسائل کو بہتر انداز میں منظم کرنا ہوگا۔
قرائن بتا رہے ہیں کہ اب چند ایک ممالک مل کر باقی دنیا کو بطور منڈی استعمال نہ کر سکیں گے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران فضائی اور بحری تجارت کو جو بین الاقوامی نقصان پہنچا ہے اسے فوری طور پر پر یا مستقبل قریب میں درست کرنا کسی بھی ایک ملک کے بس میں نہیں۔ اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے سبھی ممالک سیاسی انتظامی اور معاشی کنفیوژن ژ اور قیاس آرائیوں کے نہ ختم ہونے والے بھنور میں پھنس چکے ہیں۔ اس طرح کی کیفیت میں کسی کو "رسی کا سرا"نہیں مل رہا بس "ٹامک ٹوئیوں "کے ذریعے اپنی اپنی حکومتوں کے بھرم قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ایک اطلاع کے مطابق کورونا کی وبا کے اثرات سے امریکا جیسی ترقی یافتہ معیشت کو بھی خطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔ امریکا میں اب تک تین کروڑ سے زائد افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ یہ افراد گذشتہ 7 ماہ سے سوشل سیکیورٹی کی رقم پر گزارا کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکی معیشت بھی یہ بوجھ کب تک برداشت کرتی ہے۔ دنیا کے بیسیوں ارب پتی افراد جنہوں نے موجودہ مالیاتی نظام کے ذریعے عوام الناس کا استحصال کر کے ارب ہا ڈالر کی محفوظ رقم جمع کر رکھی تھی، انھیں پہلے چار ہفتوں کے دوران پانچ سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور اب جب کہ اس وبا کو چھ ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔
یہ افراد کھربوں ڈالر کے نقصان کی وجہ سے شدید ذہنی دبا کا شکار ہیں، ان کی روزمرہ زندگی شدید ترین الجھا میں ہے۔ دوسری طرف صرف"گیمنگ انڈسٹری"کے آن لائن افراد ارب پتی بن گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایمازون کے مالک کی دولت میں سے وبا کے ابتدائی چار ہفتوں میں 20ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جب کہ یہ اضافہ اب کئی گناہ زیادہ ہوچکا ہے۔ ان اثرات کی وجہ سے امریکی اور مغربی معیشت کے کھلاڑیوں میں بھی تبدیلی واقع ہورہی ہے جس کے اثرات مستقبل قریب میں عالمی معیشت کے ڈھانچے پر ہونا یقینی ہے۔
اسی طرح پاکستان کا غیر مستحکم سیاسی اور معاشی نظام بھی انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کا روزگار ختم ہونے سے زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ بھی خاتمے کے قریب ہے۔ پاکستانی اشیا کی بیرون ملک تجارت بھی تقریبا رک گئی ہے ملک میں گورننس کی صورتحال بہتر ہونے کی بجائے مزید زوال پذیر اور پیچیدگی کی طرف جارہی ہے۔
ضد اور ناعاقبت اندیشی کا خمیازہ عوام الناس بھگت رہی ہے۔ وبا کے پھیلا نے ملک کے صحت کے نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ شوگر سکینڈل، پیٹرول مافیا اور روزمرہ اشیا کی مہنگائی نے تو عوام کی کمر توڑ ی ہی تھی ٹڈی دل کے حملوں اور آیندہ آنے والی شدید بارشوں اور سیلاب کے خطرے نے ایسے الارم بجا دیے ہیں ہر درد مند شخص کو کچھ سمجھاہی نہیں دے رہا۔ طرہ یہ کہ اس موقع پر قومی قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی بجائے مخالفین کی درگت بنانے کا عمل بدستور جاری ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف وبا کی عفریت اور مہنگائی کہ جن کو قابو کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی ہنڈیا چوک میں پھوڑنے پر تلے ہوئے ہیں اور اپنے اس عمل کو عظیم کامیابی تصور کرتے ہیں۔
دنیا کا ہر باشعور حکمران اپنے وطن کی معیشت اس کے سیاسی اور سماجی نظام کو بچانے کے جتن میں مصروف ہیں لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنی ہی کشتی میں سوراخ کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہمارے سیاسی عمائدین اور ان کو کھلانے والے والے حالات کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے عظیم ترقومی مفاد میں مل بیٹھ کر اہم ترین سیاسی اور معاشی فیصلوں پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ ملک کی سرحدیں اور اندرون ملک جو بھی حالات ہیں وہ مدارالمہاموں سے چھپے ہوئے نہیں۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا، دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ورنہ بقول شخصے۔
نہ کھو بیٹھیں کہیں وہ قافلے میراث ماضی بھی
جو ہاتھوں میں زمانے حال کا پرچم نہیں لیتے