کورونا سے کیسے بچا جائے؟ یہ وبا کب ختم ہو گی؟ ان سوالات پر تو دنیا بھر کے دانشور، سائنسدان، ڈاکٹر، محقق اور حکمران سوچ بچار کر کے تھک گئے ہیں۔ اب تو دنیا کا ہر انسان اس تشویش میں مبتلا ہے کہ وہ اس وبا کے ہوتے ہوئے اپنے عوام اور ملک کو کس طرح چلائے۔ اس وبا کی تباہ کاری کا سب سے بڑا اثر معیشت پر پڑا ہے۔
کورونا کی وبا نے موجودہ عالمی مالیاتی نظام کی "اوورہالنگ" کا بگل بجا دیا ہے۔ عالمی معیشت ہو یا کسی ایک ملک کا معاشی نظام اس کی اوورہالنگ کیے بغیر کسی بھی عالمی یا علاقائی مالیاتی نظام کا Servival مشکل ہے۔
کورونا کی وبا نے گلوبلائزیشن کے مغربی تصور پر کاری ضرب لگا دی ہے۔ ایک طرف تو اس وبا نے ہر ملک کی معیشت پر دبا بڑھایا ہے تو دوسری طرف عالمی گروتھ سسک رہی ہے۔ معیشت سکڑنے کی وجہ سے ایک طرف تو پیداواری انڈیکس گھٹ رہا ہے اور دوسری طرف لوگوں کے روزگار ختم ہو رہے ہیں۔ کورونا نے عالمی معاشی نظام اور ورلڈ آرڈر کو یہ کھلا پیغام دے دیا ہے کہ اب دنیا کے کسی ملک یا چند ممالک کے گروپ کو واحد پیداواری یونٹ یا فیکٹری نہیں بننے دیا جائے گا۔
امریکا یورپ یا چین کوئی اور ملک پوری دنیا کا معاشی ٹھیکیدار نہیں بن سکے گا۔ ہر ملک کو اپنے ملک کی غذائی اور دوسری اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے وسائل کو بہتر انداز میں منظم کرنا ہو گا۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ اب چند ایک ممالک مل کر باقی دنیا کو بطور منڈی استعمال نہ کر سکیں گے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران فضائی اور بحری تجارت کو جو بین الاقوامی نقصان پہنچا ہے، اسے فوری طور پر پر یا مستقبل قریب میں درست کرنا کسی بھی ایک ملک کے بس میں نہیں۔ اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے سبھی ممالک سیاسی انتظامی اور معاشی کنفیوژن اور قیاس آرائیوں کے نہ ختم ہونے والے بھنور میں پھنس چکے ہیں۔
اس طرح کی کیفیت میں کسی کو "رسی کا سرا" نہیں مل رہا بس " ٹامک ٹوئیوں " کے ذریعے اپنی اپنی حکومتوں کے بھرم قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ کورونا کی وبا کے اثرات سے امریکا جیسی ترقی یافتہ معیشت کو کو بھی خطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔ امریکا میں اب تک تین کروڑ سے زائد افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ یہ افراد گزشتہ سوشل سیکیورٹی کی رقم پر گزارا کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکی معیشت بھی یہ بوجھ کب تک برداشت کرتی ہے۔
اسی طرح پاکستان کا غیر مستحکم سیاسی اور معاشی نظام بھی انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستانی اشیا کی بیرون ملک تجارت بھی تقریبا رک گئی ہے، ملک میں گورننس کی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے مزید زوال پذیر اور پیچیدگی کی طرف جا رہی ہے۔ ضد اور عاقبت نااندیشی کا خمیازہ عوام الناس بھگت رہی ہے۔ وبا کے پھیلاؤ نے ملک کے صحت کے نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
شوگر سکینڈل، پیٹرول مافیا اور روزمرہ اشیا کی مہنگائی نے تو عوام کی کمر توڑدی، ٹڈی دل کے حملوں اور آیندہ آنے والی شدید بارشوں اور سیلاب کے خطرے نے ایسے الارم بجا دیے ہیں کہ ہر درد مند شخص کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ ادھراس موقع پر قومی قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے بجائے نیب کے ذریعے مخالفین کی درگت بنانے کا عمل بدستور جاری ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف وبا کی عفریت اور مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ہنڈیا "چوک میں پھوڑنے"پر تلے ہوئے ہیں اور اپنے اس عمل کو عظیم کامیابی تصور کرتے ہیں۔
دنیا کا ہر باشعور حکمران اپنے وطن کی معیشت اس کے سیاسی اور سماجی نظام کو بچانے کے جتن میں مصروف ہیں لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنی ہی کشتی میں سوراخ کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہمارے سیاسی عمائدین اور ان کو "کھلانے والے" والے حالات کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے عظیم تر قومی مفاد میں مل بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کریں اور حالات کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔
یہ امر کس قدر تشویش ناک ہے کہ نہ تو وزیر اعظم صاحب کھلے دل و دماغ سے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی پی ڈی ایم کی قیادت عمران خان سے سیاسی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ اس صورتحال میں راستہ کیا ہے؟ ملک کے سیاسی نظام کو اس بند گلی سے نکالنے کے لیے سپریم کورٹ ہی رہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اگر کوئی اور راستہ ہے تو"صلاح عام ہے یاران نقطہ داں کے لیے"۔