Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Karachi Ka Challenge

Karachi Ka Challenge

جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سندھ کی حکومت کو کھری کھری سنا کر اپنا حکم جاری کیا کہ کراچی کے پانی اور بند نالوں کا علاج فوجی جنرل کے ماتحتNDMAکرے گی اور تجاوزات کو بھی وہی گرا ئیگی تو ایک بات تو سب کے سامنے واضح ہو گئی کے ہماری اعلیٰ عدلیہ، فوج اور وفاقی حکومت کراچی اور سندھ کے معاملے میں نہ صرف ایک صفحے پر آ چکے ہیں بلکہ عدلیہ کے معزز جج سب سے زیادہ ناراض ہیں اور چاہتے ہیں کہ سندھ کی حکومت انکے الفاظ میں مزے کرنے کے علاوہ کچھ کام بھی کرے۔

سپریم کورٹ کے ججوں نے جس طرح پی پی پی حکومت کی کارکردگی بیان کی اگر کوئی ذرا سی بھی شرم یا حیا رکھنے والی حکومت ہوتی تو یا تو استعفیٰ دے دیتی یا گڑگڑا کر معافی مانگتی اور وعدہ کرتی کے دل وجان سے کوشش کریگی، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، ذرا غور کریں کچھ جج جضرات کے جملے جو انہوں نے کھلی عدالت میں سب کے سامنے سنائے:

چیف جسٹس نے کہا : "سندھ حکومت با لکل فیل ہو گئی ہے، آپ نے کراچی کو ایک گاؤں بنا دیا ہے، آپ موجیں مستیاں کر رہے ہیں، آپکی حکومت کہاں ہے، آپکا حکم کہاں چلتا ہے، یہاں مافیا کام کر رہی ہے، کوئی قانون نہیں، یہاں انارکی (انتشار) ہے، سندھ ایک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور صوبائی حکومت اس صورتحال میں بھی مزے لے رہی ہے، انہوں نے پوچھا: آپ کب کچھ کرینگے یا بیرون ملک سے طاقتوں کو بلایا جائے کے وہ لوگوں کے حقوق دلوائیں، کراچی سے کشمور تک کچھ نہیں ہو رہا، تیس سال سے سندھ میں کوئی عوام کے لئے گھر بنانے کی سکیم نہیں دی گئی جبکہ کراچی میں ایک کروڑ لوگوں کا اضافہ ہو چکا تھا، پورا شہر غلاظت اور گٹر کے پانی سے بھرا ہوا ہے، مچھر، مکھیوں اور جراثیم کا ڈھیر لگا ہوا ہے، کراچی کو مافیاآپریٹ کررہے ہیں کوئی قانون کی عمل داری نہیں، پوری حکومتی مشینری سب ملوث ہیں، افسر شاہی سب ملے ہوئے ہیں، کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا صوبائی حکومت بنیادی کام نہیں کر سکی، لوگوں کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں دینا تو دور کی بات ہے، یہاں تو لوگوں کو پانی اور بجلی کیلئے بھی عدالت آ نا پڑتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہاں جسکی لاٹھی اسکی بھینس والا معاملہ ہے، عدالت نے ایکشن لیا تو تجاوزات ہٹا دیتے ہیں، کیا اسطرح میگا سٹی چلتے ہیں۔

تینوں معزز جج حضرات نے اور بھی کئی باتیں کیں۔ ان الفاظ اور ریمارکس کے بعد کیا رہ گیا مگر سندھ حکومت کے لیڈر اور ترجمان ٹی وی پر ڈھیٹوں کی طرح یہ کہتے رہے کہ اگر جج حضرات نے کچھ باتیں کربھی دیں تو کیا ہوا وہ تو وفاقی حکومت کے بارے میں بھی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، یعنی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور اچھا ہے کے یہ مشکل کام اب فوج اور وفاقی حکومت کرینگے اور ہم آرام سے اپنا وہی کام کرتے رہیں گے جسکے ہم ماہر ہیں۔

مگر اب یہ کہنا اتنا آسان نہیں رہا۔ عدالت میں ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کے تمام آئینی اقدامات جو وفاق لے سکتا ہے وہ زیر غور ہیں، ان اقدامات میں سب سے زیادہ شور گورنر راج کا ہے اور سوشل میڈیا پر تو فورا شور مچ گیا کہ جمہوریت کو خطرہ پیدا ہو جائیگا اور پی پی پی والے اندروں سندھ میں گڑ بڑ شروع کر دینگے۔ عمران خان اور فوج کیلئے مزید سر درد کھڑے ہو جا ئیں گے جبکہ ابھی ان نئی مشکلات سے بچنا چاہیے۔

تو پھر عمران خان اور وفاق والے کیا کرینگے، ایک مثال تو حال ہی میں سب نے دیکھی جب وزیر اعظم نے فوج اور این ڈی ایم اے کو کراچی بھیجا، اب سپریم کورٹ نے ان وفاقی اداروں کو مزید کام بتا دیے ہیں اور کئی مہینے تک یہ کام چلیں گے، اسی طرح پورے سندھ میں سیلاب آ ئے تو وہاں بھی فوج نے لوگوں کو بچایا، تو یہ طریقہ تو اب عام ہو گیا اور بغیر گورنر راج لگا ئے وفاق ہر وہ کام کریگا جہاں صوبائی حکومت فیل ہو رہی ہوگی۔ سوال یہ کھڑا ہوگا کہ ان تمام کاموں پر جو کروڑوں اربوں روپے خرچ ہونگے وہ کون دیگا، کیا سندھ کو جو بجٹ دیا جاتا ہے اس میں سے کٹوتی ہوگی یا الگ سے اضافی رقم دی جا ئے گی۔ سندھ کی حکومت تو بہت خوش ہوگی اگر اضافی رقم دی گئی کیونکہ انکے اخراجات اسی طرح چلتے رہینگے، کام بھی دوسرے لوگ کر دیں گے اور وہ آرام سے بقول سپریم کورٹ مزے اڑاتے رہینگے۔ مگر ایسا اگر نہیں ہوا اور سندھ کے پیسوں میں کٹوتی کی گئی جو میرے خیال میں بالکل کرنی چاہیے تو پی پی پی والے شور مچائینگے، وفاق اور عمران خان کو اس شور کا جواب دینے کیلئے تیار رہنا چاہیے اور بہتر ہوگا کے وہ سپریم کورٹ سے ہی یہ آرڈر بھی لیں لیں کہ جو خرچہ ان صوبائی کاموں پر وفاق کریگا وہ صوبے کے بجٹ سے کاٹا جائے، کچھ وفاقی منصوبے جیسے کراچی سرکلرریلوے یا بڑی سی پی ای سی کی موٹر ویز تو وفاق کو ہی بنانی چاہیئں مگر سندھ والے اگر اپنا کام وقت پر اور صحیح طرح نہیں کر سکتے تو پھر ٹھیک ہے وہ کام تو کوئی نہ کوئی کر ہی دیگا مگر سندھ کو قیمت تو ادا کرنی ہوگی۔ کراچی ملک کا کمرشل دارالخلافہ ہے۔ دونوں بندرگاہیں کراچی میں ہیں۔ پی آئی اے اور بیشمار وفاقی ادارے کراچی سے چلائے جاتے ہیں۔ کراچی ٹھیک چلے گا، تو معیشت بھی ٹھیک چلے گی مگر اسکی ذمہ داری کس کی ہے کہ کراچی کی سڑکیں اورشاہراہیں کھلی رہیں، وفاقی اداروں میں کام کرنے والے دفتر جا سکیں اور صوبائی حکومت کی نا اہلی اور ناکامی کی قیمت ملک کی معیشت اور وفاق کو نہیں بھگتنی پڑے۔

اگر سندھ کی حکومت نے اپنا چال چلن نہیں بدلا تو پھر ملک کے تمام بڑے بڑے اداروں کو جیسے اعلیٰ عدلیہ، فوج، وفاقی حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر بزنس کے لیڈروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑیگا کہ اس مسئلے کا حل کیسے نکالا جائے۔ کیا کراچی اور ملکی معاشیات سندھ کے نا اہل اور بے ایمان لیڈروں کے ہاتھوں میں ہمیشہ یرغمال بنے رہینگے یا پھرکراچی کو کسی طرح وفاق سے جوڑا جا سکے گا تاکہ سندھ والے اپنا کام کریں اور پورا ملک انکا غلام بن کر نا بیٹھا رہے۔ بلیک میلنگ کا یہ سب سے بڑا ہتھیار سندھ کے وڈیروں سے واپس لینا پڑیگا کیونکہ 30 سالوں میں انہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انکو کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں مگر وہ کراچی کی آمدنی سے اپنا حصّہ برابر لیتے رہیں گے اور دھمکیاں بھی دیتے رہیں گے کہ ہم سندھ کو بند کر دیں گے۔ اگر کسی نے ان سے کراچی کی بدحالی کے بارے میں سوال پوچھا۔

مگر جیسا میں نے پہلے لکھا سب سے اچھی بات اب یہ ہوئی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ، فوج اور حکومت سب نے سمجھ لیا ہے کہ سندھ کے لیڈر اس بڑے مسئلے کو حل کرنے کے قابل نہیں ہیں اور باہر سے ہی آکر لوگ چیزوں کو ٹھیک کریں گے تاکہ پورا ملک اس نا اہلی کی قیمت ادا نہ کرے، یہ اب صرف کراچی یا سندھ کا مسلہ نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ ابھی تو کچھ مہینوں کے لئے فوج اور وفاقی اداروں کو عدلیہ کی طرف سے یہ کام دیا گیا ہے مگر اسکے بعد بھی اگر سندھ والوں کو عقل نہیں آئی تو پھر ایک مستقل حل نکالنا ناگزیر ہو جائیگا۔ پوری قوم کو اس بڑی انتظامی تبدیلی کے لئے تیاری کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کے سندھ اس مسئلے پر گندی سیاست نہ کرے۔

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.