بہت مشکل ہے کہ 2020 کی تلخ یادوں کو دماغ کی گیلری سےDelete کرنا۔ ہر کسی کے لیے 2020 کا سال کچھ ایسے گہرے زخم چھوڑ کر گیا ہے، جس کا بھرنا ابھی تو نا ممکن سی بات لگتی ہے۔ میرے لیے 2020 اس کالی رات کی طرح ہے، جو روشنی کی طرف جانے ہی نہیں دیتی۔ میری امی کا انتقال 25 اپریل 2020 کو ہوا۔ وہ کورونا سے اتنا ڈرتی تھیں ؛ اپنا اور گھر میں سب کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ کورونا سے تو وہ بچ گئیں، لیکن اچانک برین ہیمبرج کے اٹیک سے وہ اس دنیا سے چلی گئیں۔
امی کے انتقال کے بعد مجھے زندگی اب تک ایسے لگتی ہے، جیسے رک سی گئی ہو۔ دنیا کے سارے رشتے ایک طرف اور ماں کا رشتہ ایک طرف! یہ وہ رشتہ ہے، جس کے ٹوٹنے سے بہت سی امیدیں بھی ٹوٹنے لگتی ہیں۔ اس واقعے نے میری تو سوچ ہی بدل ڈالی ہے۔ کوئی خواہش، خواہش نہیں رہتی، ہاں! اللہ سے قربت اور گہری ہو جاتی ہے، کیونکہ جب آپ کے لیے دن رات دعا کرنے والی ہستی ہی اللہ کے پاس چلی جائے، تو اللہ سے محبت کرنے اور مزہ آتا ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے!
گزشتہ سال پوری دنیا میں لاکھوں خاندانوں نے اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا غم اٹھایا، لہذا اگر یہ کہا جائے کہ 2020 کا سال پوری دنیا پربھاری رہا، تو بیجا نہ ہو گا۔ ذرا سوچئے کہ ایک Planning ہماری ہوتی ہے اور ایک Planning اوپر والے کی ہوتی ہے۔ ایک رضا ہماری ہوتی ہے اور ایک رضا اوپر والے کی ہوتی ہے، مگر انسان کی بد قسمتی دیکھیے کہ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی؛ مگر یہ نظام قدرت ہے کہ اس دنیا میں لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ یقیناً دنیا میں آنے والا ہر شخص اپنے کچھ نہ کچھ نقوش چھوڑ کر جا تا ہے۔ خوش قسمت ہیں، وہ لوگ جو اپنی زندگی کو لوگوں کی فلاح کیلیے استعمال کرتے ہیں ؛ کامیاب ہیں، وہ لوگ جو وطن کی حرمت پر قربان ہوجاتے ہیں ؛ قابل رشک ہیں، وہ لوگ جنھوں نے دکھی انسانیت کی خدمت کرکے اپنی آخرت کو سنوارنے کی بھرپور کوشش کی۔
موت کا فلسفہ ہی یہ ہے کہ یہ زندگی مختصر ہے۔ کئی نامور شخصیات ہمیں 2020 میں چھوڑ کر چلی گئیں، مگر صرف عبد الستار ایدھی، ڈاکٹر روتھ فائوجیسی عظیم شخصیات کو دنیا آج بھی اپنی دعائوں میں یاد کرتی ہے۔ آج اہل علم ودانش اپنی فکر کے ذریعے، اپنی ہنرکے ذریعے، اپنے نظر یات اور اپنی قربانیوں کے ذریعے تاریخ کی کتابوں میں زندہ ہیں، اپنی جائزخواہشات کی تکمیل کرنا کوئی بری بات بھی نہیں، مگر اپنے راستے کے کانٹے صاف کرنے کے لیے دوسرے کے راستے میں کانٹے بچھانا غلط ہے۔
ہمیں اپنے اردگرد ایسے سیکڑوں لوگ نظر آئیں گے، جو اپنی کامیابی کی خاطر دوسروں کو ناکام بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں ؛ یہ لوگ کمزور طبقے کا استحصال کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے، کیونکہ انھیں تو صرف کامیابی حاصل کرنی ہے اس بے حسی کا عملی مظاہرہ ہمیں اپنی سیاست میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اقتدار کی ہوس میں گم یہ سیاستدان عوام کی جانوں کی پرواکئے بغیر جمہوریت کے نام پر لوگوں کو سڑکوں پر نکالنے کی کوشش مصروف ہیں۔
بظاہر یہ سیاستدان عوام کی زندگی کو خوشحال بنانے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، مگر ان کا اصل مقصد صرف اقتدار کا حصول ہے۔ یہ اقتدار کی ہوس میں اس حد تک اندھے ہو چکے کہ انھیں کورونا وائرس حقیقت کی بجائے سازش دکھائی دیتا ہے۔ انھیں اس بات کی پروانہیں کہ روزانہ کورونا وائرس سیکڑوں جانوں کو نگل رہا ہے ور اگر کو رونا وائرس کے پھیلائومیں کمی نہ آئی، تو حکومت کوسمارٹ لاک ڈائون سے مکمل لاک ڈائون لگانے کا فیصلہ بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
اب ذرا سوچئے کہ لوگوں کی معاشی مشکلات تو پہلے ہی اتنی زیادہ ہیں، اگر مکمل لاک ڈائون لگانا پڑ گیا، تو کتنے لاکھ افراد کو بے روزگاری کا سامنا کرنا ہو گا؟ کتنے لاکھ خاندان اس بے روز گاری سے متاثر ہوں گے اور ایک لمحے کے لیے یہ بھی سو چئے کہ ہمارے ہسپتالوں کی کیاصورتحال ہے؟ کیا ہم عوام کو طبی سہولیات فراہم کرسکیں گے؟ اگر اپوزیشن عوام کی جانوں سے کھیل رہی ہے تو حکومت کون سی عوام کی خدمت کرنے کے لیے سنجیدہ ہے؟
حکومتی ترجمان بھی عوامی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اللہ نے وزیر اعظم عمران خان کو بہترین موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اس ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے عملی اقدامات کر یں، مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن سب انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں اور اس ا کا ایندھن عوام کو بنایا جا رہا ہے۔
ہمارے حکمران شاید یہ بھول رہے ہیں کہ یہ نظام قدرت ہے کہ اگر کوئی کسی کو نقصان پہنچانا چاہے یا کسی کے لیے گھڑا کھودے تو وہ خود اس گھڑے میں جاگر تا ہے۔ کورونا وبا نے یہ ثابت کیا ہے کہ بیماری کسی امیر غریب میں تفریق نہیں کرتی وبا کسی بادشاہ اور غلام میں تخصیص نہیں کرتی اور اس کی زندہ مثالیں وہ تمام بڑے بڑے لوگ ہیں، جن کو اللہ نے ہر سہولت اور نعمت سے نوازا، مگر وہ گزشتہ سال 2020 میں کورونا کا شکار ہوئے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک دن ہم سب نے چلے جا نا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے آخرت کے سفر کی تیاری کر لی ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ اس دنیا سے جانے کے بعد لوگ ہمیں کن لفظوں میں یاد کرے گی؟ اور ہم اپنے رب کے حضور اپنی مغفرت کے لیے کیا پیش کریں گے؟ اس بارے میں سوچئے گا ضرور! 2020 ایک تلخ حقیقت تھا، جو ہم سے رخصت ہو چکا اور یہ سچ ہے۔