جنوری کی شدید سرد ی میں سیاست میں ایسی گرما گرمی دیکھنے میں آ رہی ہے، جو اس سے قبل پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں دیکھی گئی۔ فارن فنڈنگ کیس ہو یا براڈ شیٹ کا معاملہ، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سرد جنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن کمیشن کے باہر 6 سال سے زیر التوا فارن فنڈنگ کیس کو مدعا بناتے ہوئے بھرپور احتجاج ریکارڈ کروایا۔ یوں پی ٹی آئی پر بیرونی ممالک سے حاصل ہونے والی رقم(فارن فنڈنگ) کا معاملہ ایک بار پھر زیر بحث آ گیا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس ہے کیا؟ اس کے بارے میں عر ض ہے کہ2014میں پی ٹی آئی کے ایک منحرف رکن اکبر ایس بابر نے پارٹی کی اندرونی مالی بے ظابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز موصول ہوئے اور مبینہ طور پر2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ملین ڈالرز بذریعہ ہنڈی، پارٹی کے بینک اکاونٹ میں منتقل کیے گئے، جبکہ اسٹیٹ بینک کے قوانین کے مطابق، کوئی بھی جماعت کسی بھی قسم کے غیرملکی فنڈز صرف اور صرف اسٹیٹ بینک کی وساطت سے ہی وصول کر سکتی ہے، لہذا اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف نے بیرون ملک سے فنڈز اکٹھا کرنے والے بینک اکاونٹس کو اسٹیٹ بینک اور الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھا۔
اس الزام پرتحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی چھان بین کرنے کے دائرہ اختیار کو چیلنج کر دیا، جس پر الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2015 کو تحریک انصاف کے فنڈز کی چھان بین کے بارے میں اعتراض کومسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ الیکشن کمیشن پارٹی فنڈز کی چھان بین کرنے کا اختیار رکھتا ہے، یوں الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے اکائونٹس کا آڈٹ کرنے کے لیے مارچ 2018ء میں ایک سکروٹنی کمیٹی تشکیل دے دی اورالیکشن کمیشن کی یہ سکروٹنی کمیٹی گزشتہ کئی سالوں سے پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کے معاملات کا جائزہ لے رہی ہے۔ بعد ازاں ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی اس کیس میں فریق بن گئیں، جبکہ جولائی 2018 میں الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی جانب سے تفصیلات فراہم نہ کرنے پر اسٹیٹ بینک سے 2009 سے لے کر 2013 تک تحریک انصاف کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کیں، تواسٹیٹ بینک نے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے 23 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کر دیں، جبکہ اس سے قبل تحریک انصاف کی جانب سے صرف 8اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔
دوسری جانب تحریک انصاف نے بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر بھی فارن فنڈنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کر دی اور اب تینوں سیاسی جماعتوں کے خلاف فارن فنڈنگ کا کیس الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے۔ سوال یہ ہے کہ فارن فنڈنگ پر قانون کیا کہتا ہے؟ تو اس بارے میں قانون میں یہ وضاحت موجودہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے آرٹیکل 13 کے تحت مالی سال کے اختتام سے 60 روز کے اندر اندر الیکشن کمیشن میں اپنے بینک اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ جمع کروانا ہوتی ہے، جس میں سالانہ آمدن اور اخراجات اور حاصل ہونے والے فنڈز کے ذرائع بتانا ہوتے ہیں، لہذا قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس صرف پی ٹی آئی کے لیے ہی نہیں، بلکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کے بارے میں تحریک انصاف کا موقف ہے کہ وہ اس کیس سے بھاگ نہیں رہے، بلکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھاگ رہی ہیں، تاہم سچ یہ ہے کہ فارن فنڈنگ کے حوالے سے بنائی گئی اسکروٹنی کمیٹی کو تحریک انصاف کے اکائونٹس کا آڈٹ ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ذمہ داری دی گئی؛ تاہم بعد میں اس کمیٹی کو غیر معینہ مدت تک توسیع دے دی گئی اور میڈیا ذرائع کے مطابق اس کمیٹی 70 سے زائد اجلاس ہو چکے، لیکن کمیٹی انکوائری مکمل کرنے اور الیکشن کمیشن میں رپورٹ جمع کروانے میں تاحال ناکام ہے، لہذا یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ 2014 سے لے کر اب تک اس کیس کا فیصلہ نہیں سنایا جا رہا؟ تو اس حوالے سے مذکورہ بالاتمام حقائق کو دیکھتے ہوئے لگتا یہی ہے کہ دال میں واقعی کچھ کالا ہے۔
فارن فنڈنگ کیس سے ہٹ کر اگر براڈشیٹ معاملے کی بات کی جائے، تو یہ معاملہ بھی پیچید ہ ہو تا نظر آرہا ہے۔ براڈ شیٹ فرم کے سربراہ کاوئے موسوی کبھی کچھ کہہ دیتے ہیں، تو کبھی کچھ۔ دوسری طرف اپوزیشن اور حکومتی حلقوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے بقول؛ براڈ شیٹ کی صورت میں نو از شریف اور ان کے خاندان کی کرپشن پکڑی گئی ہے اوراس کیس کے کچھ حصے اب پبلک بھی کیے جا رہے ہیں، مگر اس سب کے باوجود ابھی تک اس معاملے میں اپوزیشن اور حکومتی وزرا ایک دوسرے پر صرف الزام تراشی کرتے ہی نظر آتے ہیں۔ حکومت اسے ن لیگ کے لیے دوسرا پاناما کیس قرار دے رہی ہے، جبکہ ن لیگ براڈ شیٹ کے جرمانے کو حکومت کی پسپائی اور اپنی فتح قرار دے رہی ہے، جبکہ سچ تو یہ ہے کہ براڈ شیٹ سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ براڈ شیٹ کیس شریف خاندان کے گلے پڑ چکا ہے، جبکہ مریم نواز یہ سمجھتی ہیں کہ براڈ شیٹ نے نواز شریف کو بے گناہ ثابت کر دیا ہے۔ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں ہی ایک دوسرے کو کرپٹ سمجھتی ہیں ؛ دونوں ہی ایک دوسرے پر غیری ملکی طاقتوں سے پیسے لینے کے الزامات عائد کرتی ہیں اور دونوں ہی یہ سمجھتی ہیں کہ ان کا دامن پاک ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے اپوزیشن اور حکومت دونوں کا اپنا اپنا سچ ہے اور اپنا اپنا جھوٹ ہے۔