گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کی 13 ویں بر سی کی تقریب، پی ڈی ایم کے جلسے میں تبدیل ہو گئی۔ بظاہر پی ڈی ایم کی قیادت نے لاڑکانہ کے اسٹیج پر کھڑے ہو کر حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، مگر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جلسے میں عدم شرکت اور آصف علی زرداری کی معنی خیز تقریر نے پی ڈی ایم میں اختلافات کی شدت کو واضح کر دیا۔ آصف علی زرداری کا پرویز مشرف کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہنا کہ میں نے ایک جنرل کو صدر ہوتے ہوئے مکھی کی طرح دودھ سے نکالا، عمران خان کیا چیز ہے؟ عمران خان کو ہم نکال سکتے ہیں، مگر ہمیں سوچ اور طریقہ کار کوبدلنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ زرداری صاحب کس سوچ اور طریقہ کار کو بدلنا چاہتے ہیں؟ آصف علی زرداری نے واضح الفاظ میں یہ بھی کہا کہ میں چاہتا ہوں سب جماعتیں ایک سوچ پرآئیں، ہم ایک دوسرے کو نہ بتائیں کہ ہمیں کیاکرنا ہے، کچھ ہم سے سیکھ لو، کچھ ہم سے سمجھ لو، ہوسکتا ہے میں نے یہ کام پہلے بھی کیا ہو! سوال یہ بھی ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت میں ایسی کون سی شخصیت ہے؟ جیسے زرداری صاحب کچھ سیکھانا اور سمجھنا چاہتے ہیں؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر پی ڈی ایم کی قیادت میں وہ کون ہے، جو مفاہمت کے گرو آصف علی زرداری کو بتانا چاہتا ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جس شخص کے بارے میں زرداری صاحب دودھ میں سے مکھی کی طرح نکالنے کا دعویٰ کر چکے، اسی پرویز مشرف سے نہ صرف پیپلزپارٹی نے این آر او حاصل کیا، بلکہ اسے گارڈ آف آنر دے کر ایوان ِصدر سے رخصت بھی کیا۔ آصف علی زرداری کی تقریر سے ہٹ کر بے نظیر بھٹو کی 13 ویں برسی کی تقریب کی سب سے خاص بات مریم نواز کی شرکت تھی۔ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ جب سے پی ڈی ایم کی تحریک شروع ہو ئی ہے، پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی قیادت میں قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ دو نوں سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی تعلقات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے، تو 90 کی دہائی میں ن لیگ نے بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کی بھرپور مہم چلائی، اس مہم کے دوران آصف علی زرداری کو بھی مسٹر ٹین پرسینٹ جیسے الفاظ کے ساتھ نواز گیا، مگر سابق آمر پرویز مشرف کے دور حکومت کے دوران جب شریف خاندان کو جلا وطنی اختیار کرنی پڑھی تو ن لیگ اورپیپلزپارٹی کی قیادت کے درمیان خوشگوار تعلقات کا آغاز ہوا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کا اعادہ کیا، مگر جب اقتدار ملا تو ن لیگ کی قیادت نے پیپلزپارٹی کی وفاق میں حکومت کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔ میموگیٹ اسکینڈل میں میاں نواز شریف خود کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچے۔ شہباز شریف نے بھاٹی گیٹ پر ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران زرداری کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا دعوی ٰکیا۔ سندھ کی سب سے بڑی بیماری آصف علی زرداری، جیسے نعرے لگوائے گئے، مگر جب عمران خان نے 2013 میں نواز شریف کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز کیا، تو نظریہ ضرورت کے تحت ن لیگ اور پیپلزپارٹی پھر اکٹھے ہوگئے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف کو مودی کا یار قرار دیا۔ 2018 کے عام انتخابات میں مریم نواز نے عمران زرداری بھائی بھائی کے نعرے لگوائے، مگر آج وہی مریم نواز پیپلزپارٹی کے گڑھ لاڑکانہ میں کھڑے ہو کر زرداری صاحب کی سیاست کو دادتحسین پیش کر رہی ہیں۔
الزام تراشی اور دشنام طرازی کی سیاست کا یہ سلسلہ صرف پیپلز پارٹی اور ن لیگ تک محدود نہیں، پاکستانی سیاست میں دوستی اور دشمنی کے لیے کوئی اخلاقیات اور اصول نہیں، بلکہ مفادات اہم ہیں۔ اس لیے اگر کل پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی یا پھر ن لیگ اور تحریک انصاف اکٹھی ہو جائے، تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی، کیونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ لگتا یوں ہے کہ الزام تراشی اور دشنام طرازی ہی پاکستان کی سیاست کا اصل رنگ ہے، جسے یقیناً بدلنے کی ضرورت ہے۔
سچ تو یہ بھی ہے کہ ہمارے سیاست دان خود پسندی کا شکار ہیں اور انہیں صرف اور صرف اقتدار میں رہنے کا نشہ ہے، کیونکہ سیاسی مخالفین کے خلاف یہ سیاست دان کبھی کبھی ایسی ایسی باتیں کر جاتے ہیں، جو یقیناً ایک ہوش مند انسان نہیں کر سکتا؛کبھی یہ بستر مرگ پر پڑے مخالفین کی بھد اڑانے سے باز نہیں آتے، تو کبھی مرنے والوں کے بارے میں بھی ایسے ایسے الزامات اور جملے کستے دکھائی دیتے ہیں کہ ان سے خوف آنے لگتا ہے۔ اس سب کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ الزام تراشی اور دشنام طرازی کی تو تکرار کے علاوہ شاید اب سیاست میں کچھ نہیں رہا ہے۔ اصولی طور پر دیکھا جائے، تو جمہوری عمل کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے اپوزیشن سے زیادہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سیاسی ماحول کو ساز گار رکھے اور رواداری سے کام لے، لیکن بدقسمتی سے حکومت میں موجود وفاقی وزرا اور اکابرین کے منہ سے رواداری کی بات کی بجائے اکثرناگواری کی باتیں ہی سننے کو ملتی ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان رواں صدی کی پہلی دہائی میں ہونے والے میثاق جمہویت کی بنیادی وجہ یہی بہتان تراشی اور دشنام طرازی کی سیاست بنی اور تباہ شدہ قومی سیاست میں بہتری لانے کے لیے میثاق جمہوریت پہلا قدم ثابت ہوا۔
یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ میثاق جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ ہو ا، جس طرح ہونا چاہیے تھا اور اگر ہو جاتا تو شاید کم از کم ملکی سیاست ایسی نہ ہوتی، جیسی آج ہے۔ سیاست میں دشنام طرازی، الزام تراشی اور کفن نوچنے کے نتائج کیا نکلتے ہیں اور کس قدرنقصان کے بعد میثاق جمہوریت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، شاید ہماری سیاسی قیادت کو ابھی بھی اس کا احساس نہیں ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنی سیاست کے بیانیے پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔