ارے اس کال پر بات نہ کرو۔۔۔ بند کرو۔۔۔ بند کرو۔۔۔ واٹس ایپ پر آئو۔۔۔ واٹس ایپ زیادہ محفوظ ہے۔ جی ہاں! ہم سب ہی یہ کرتے ہیں۔ یہ ہم سب کی نارمل کی روٹین ہے۔ پوری دنیا میں لوگ واٹس ایپ کو محفوظ تصور کرتے تھے، لیکن اب یہ بھی محفوظ نہیں رہا، کیونکہ گزشتہ چنددنوں سے واٹس ایپ کی طرف پرائیویسی کی ایک نئی پالیسی کا پیغام دنیا میں موجود اس کے لاکھوں صارفین کو موصول ہورہا ہے، جس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ واٹس ایپ کی جانب سیاپنیصارفین کو پرائیویسی پالیسی کے حوالے سے ایک پیغام ارسال کیا جا رہا ہے، جس سے صارفین کو اتفاق کرنا ہے، وگرنہ کمپنی کی جانب سے بتایا جا رہا کہ جو صارف نئی پرائیویسی پالیسی سے اتفاق نہیں کرے گا، اس کا واٹس ایپ 9 فروری کے بعد بلاک کردیا جائے گا۔ واٹس ایپ کی اس پرائیویسی پالیسی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس پالیسی کے تحت واٹس ایپ، فیس بک اور دیگر تھرڈ پارٹیز کے سا تھ اپنیصارفین کا تمام اہم ڈیٹا شیئر کرنے کی مجاز ہو گی۔
واٹس ایپ کی نئی پرائیویسی پالیسی نے صارفین کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کے برعکس ایک زمانہ تھا کہ جب ٹیکنالوجی نے اس حد تک ترقی نہیں کی تھی اور دنیا گلوبل ویلیج میں تبدیل نہیں ہوئی تھی ؛ زندگی میں تب بھی رنگ تھا ؛ تب بھی ہمارے دوست تھے، سوشل لائف کا ایک الگ مزہ تھا ؛ ہماری نجی زندگی ہر لحاظ سے محفوظ تھی ؛ پرائیویسی کس بلا کا نام ہے؟ یہ ہمیں معلوم نہ تھا، والدین کی محبت و شفقت اوربزرگوں کی کڑی نگاہ ہمیں کبھی زندگی میں بھٹکنے نہیں دیتی تھء، مگر پھر وقت نے کروٹ لی اور لوگ سو شل میڈیا کی دنیا میں کھونے لگے ؛ فیس بک نے اجنبی کو بھی دوست بنادیا، واٹس ایپ کی مفت کال اور پیغام کی سہولت نے اپنا گرویدہ بنا لیا، ٹوئٹر نے الفاظ کو ایسی طاقت دی کہ آج حکام سے لے کر عوام تک ہر شخص آزادیٔ اظہار کے مزے لوٹ رہاہے، مگر زندگی کو لمحوں اور سیکنڈوں میں بدلنے کی طاقت رکھنے والے سو شل میڈیا کا کمال دیکھیں کہ پہلے اس نے ہمیں اپنا عادی بنایا اور پھر ہماری نجی زندگی کو غیر محفوظ بنا دیا۔ آج آپ کو پوری دنیا میں سو شل میڈیا قوانین کی بحث سنائی دے رہی ہے، جس کا آپ نے چند سال قبل کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
واٹس ایپ کوپیغام رسانی کے لیے استعمال ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی ایپ شمار کیا جاتا ہے۔ واٹس ایپ کی آفیشل ویب کے مطابق، دنیا بھر میں 200 کروڑ سے زیادہ صارفین اس ایپ کو استعمال کرتے ہیں۔ اس ایپ کے ذ ریعے والدین اپنے بچوں کے ساتھ رابطہ میں رہتے ہیں۔ عزیز و اقارب اور دوستوں میں اپنے اہم اور قیمتی لمحات شیئر کیے جاتے ہیں، اسی طرح کام کرنے والے ساتھی(کولیگز) اس ایپ کے ذریعے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کاروباری افراد اپنے کسٹمرز سے جڑ کر معاشی ترقی کرتے ہیں۔ نجی باتیں جو کبھی صرف مل بیٹھ کر ہی کی جا سکتی تھیں، اب فوری چیٹنگ اور ویڈیو کالز کے ذریعے کہیں سے بھی ہو سکتی ہیں۔ الغرض بہت سے اہم اور خاص لمحات واٹس ایپ پر شیئر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ واٹس ایپ کے ہر صارف کی زبان پر آج کل ایک ہی سوال ہے کہ کیا واٹس ایپ کے استعمال سے ان کا ڈیٹا غیر محفوظ ہو جائے گا؟ شایدیہی وجہ ہے کہ صارفین کی جانب سے ڈیٹا کی فراہمی کے معاملے پر واٹس ایپ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ اب تک دو ارب سے زائد لوگوں نے واٹس ایپ کے متبادل کے طور پر ٹیلی گرام اور سگنل نامی ایپلیکیشنز کو ڈاؤن لوڈ کر لیا ہے۔
دوسری طرف صارفین کی شدید تنقید کے بعد واٹس ایپ کے سربراہ ول کیتھکارٹ نے نئی پالیسی کے حوالے سے وضاحت بھی پیش کی ہے اور یقین دہانی کروائی کہ نئی پالیسی سیصارفین اس طرح متاثر نہیں ہوں گے، جس طرح وہ سوچ رہے ہیں اور نہ ہی اْن کا ڈیٹا کسی کوفراہم کیا جائے گا۔ یہ بات ول کیتھکارٹ نے اپنیٹوئٹر اکائونٹ پر کہی ہے۔ واٹس ایپ کی پرانی پالیسی کے مطابق، اس ایپ کے ذریعے بھیجا گیا ہر نجی پیغام ڈیفالٹ طور پر شروع سے آخر تک مربوط طور پرمحفوظ ہوتا ہے۔ واٹس ایپ نے اپنی پرانی پرائیویسی پالیسی میں صارفین کی پرائیویسی کی حفاظت کو اپنے ڈی این اے کا حصہ بتایا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ اب نئی پالیسی میں یہ چیز شامل نہیں ہو گی، تاہم واٹس ایپ اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹیڈ کو برقرار رکھے گا۔ اس کے تحت نہ تو صارفین کے پیغامات کہیں اور دیکھے جا سکتیہیں اور نہ ہی انہیں کسی کے ساتھ شیئر کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے کئی پلیٹ فارمز فیس بک، انسٹا گرام، ٹویٹر اور واٹس ایپ لوگوں کی زندگیوں کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ آج کل ٹک ٹاک نامی ایک ویڈیوایپ سے ہمارے معاشرے میں کئی گھرانے اجڑ چکے ہیں، مگر اس ایپ کی مقبولیت میں اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے، گزشتہ برس حکومت کی طرف سے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی گئی، تواس پر عوام کی طرف سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ دوسری طرف یہ بات بھی انتہائی حیران کن ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی آپ کو ایسیکئی افراد بھی ملتے ہیں، جو فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ، اسکائپ، ٹک ٹاک اور ایسی ہی دیگرایپلیکیشنز سے کوسوں دور ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم تو ایسی قوم ہیں، جو نیکی کے کام جیسے ؛کسی غریب کی مدد کرنا، صدقہ و خیرات کرنا، نماز عیدین کا ادا کرنا، نکاح کی مبارک رسم کا انعقادہونا، گھر میں ہونے والی مذہبی تقاریب وغیرہ کی تصاویر بھی سوشل میڈیا فیس بک، انسٹا گرام اور واٹس ایپ اسٹیٹس پر لگانا فرض سمجھتے ہیں ؛ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ نیکی کیا نیکی ہوئی، جو دکھاوے کے لیے کی جائے، لہذا سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹوں کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ہماری کوئی پرائیویسی ہے ہی نہیں، لہذا اس حوالے سے پاکستان میں واٹس ایپ صارفین کو زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے، مگر سچ تو یہی ہے کہ واٹس ایپ بھی دھوکہ دے گیا۔