مجھے لگتا ہے جیسے ہم سب جھوٹ کے بیوپاری ہیں۔ یقین کریں میں غصے، بے چارگی اور بے بسی سے عام لوگوں کی یہ باتیں اور چہ مگوئیاں سنتا رہتا ہوں کہ میڈیا نہ جانے کیوں سچ چھپانے کی کوشش کرتا ہے، جھوٹ چھاپتا رہتا ہے، جھوٹ بولتا رہتا ہے، سچ کو آف دی ریکارڈ کہہ کر چھپاتا ہے اور جھوٹ کو آن دی ریکارڈ کر دیتا ہے۔ یہ عام سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ سب ہمیں اندھا اور بہرہ سمجھتے ہیں۔ در حقیقت تحقیق و تصدیق اور موزوں الفاظ سے کیا جانے والے تجزیوں سے عام شخص اس لئے شاکی ہے کہ اپنے لیڈروں کے خیالات، بیانات اوراظہار خیال میں وہ صبح شام بدلتے رنگوں کو دیکھ کر کنفیوزہو گیا ہے، جھنجلا گیا ہے۔ صبح ناشتے کی میز پر کچھ انداز اور دوپہر کو مختلف تیور اور شام تک بدلا ہوا بیان اسے الجھن میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ سیاسی رولر کوسٹر آج کی ایجاد نہیں ہے۔ لیکن اب یہ اتنی سرعت اور تسلسل سے کہا جا رہا ہے کہ عام شخص کو یہ جھوٹ اور ڈھونگ لگنے لگا ہے۔ وہ حکمرانوں کی جانب سے بار بار ریاست مدینہ کی گردان سنتا ہے تو حیران و پریشان اپنے چاروں اطراف نظر ڈالتا ہے اور سوچتا ہے کہ کیا یہاں تو ہر طرف خوشحالی اور امن و سکون کا راج ہو گیا ہے؟ کیا انصاف کا بول بالا ہے؟ کیا ریاست ہر شخص کے تحفظ، اس کی صحت، تعلیم کی ضامن بن گئی ہے؟ کیاہر ایک کے لئے مواقع موجود ہیں؟ کیا پیٹ بھر کر روٹی کھانا اب مسئلہ نہیں رہا؟ کیا ہر ایک سر پر سائبان ہے؟ کیا وزیر اعظم سے لیکر تمام وزراء اور اہلکار عام شخص کی طرح زندگی گزار رہے ہیں؟ عمران خان نے واقعی ملک کو ریاست مدینہ بنا دیا ہے؟ جب وہ اس تصوراتی تخیل اور وعدوں سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آتا ہے تو اس کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں اور وہ مایوسی کے دلدل میں غوطے کھانے لگتا ہے۔
ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں اطلاعات اور علوم کا ایٹم بم پھٹ چکا ہے اور ذہنوں میں نت نئے سوالات پیدا ہو چکے ہیں۔ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ سندھ میں صوبوں کی تقسیم پر آپس میں الجھ جانے والی ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے اس صوبے کی خوشحالی اور عام شخص کی فلاح و بہبود کے لئے کیا کیا؟ ایم کیو ایم نے اپنی بے مثال مقبولیت اور اپنے ووٹر کے اندھے اعتماد کی قوت کے با وجود اسے کیا دیا؟ سندھ کے شہری علاقوں میں معاشی، معاشرتی اور تمدنی ارتقاء کا عمل یہاں کے لوگوں کو کہاں تک لے آیا۔ تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا، آپ کے ووٹر اور سپورٹرز کے چہروں پر پھیلی ہوئی مایوسی اور بکھرے ہوئے سوالات بتا رہے ہیں کہ اعتماد کے وہ رشتے بکھر گئے ہیں، جن کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ مان لیں کہ قدرت نے آپکو ایک سنہری موقع دیا تھا جو آپ نے گنوا دیا۔ باقی سیاست، دعوے اور وعدے چلتے رہتے ہیں، چلتے رہیں گے لیکن محبتوں کے وہ انمول خزینے اور اعتماد کے مضبوط رشتے کہاں گم ہو گئے، کیوں اوجھل ہو گئے۔ ذرا سوچئے ضرور کیونکہ بعض سوال اپنے جواب سے زیادہ جامع، زیادہ مکمل ا اور زیادہ بلیغ ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا ووٹر آج بھی جئے بھٹو کا نعرہ ضرور لگاتا ہے لیکن جب آپ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو کراچی سے کشمور تک جہاں کہیں نظر دوڑائیں، غربت پسماندگی اور محرومی کا احساس ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں سندھ کے مختلف شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں سورج کی شعائیں تیر کی طرح جسم میں اتر رہی تھیں اور پسینہ سانپ کی طرح سر سے تلوئوں تک رینگ رہا تھا۔ اس تپتی زمین پر میں نے عام لوگوں کی زندگی کو دیکھا تو محسوس ہوا کہ کراچی کے ایوانوں میں بیٹھے ان نمائندوں اور ان غریبوں کی زندگی میں کتنا فرق ہے۔ یہاں زمین ہے، ہوا ہے، بیج ہے، بونے اور کاٹنے والے ہاتھ ہیں لیکن اس کے با وجود بھوک ہے۔ یہاں محتاجی ہے، کیا ہو گا کے اندیشے ہیں، کبھی آپ نے سوچا کہ ایساکیوں ہے۔ جی ہاں۔ جب اللہ کی زمین پر جاگیر دار فرعون بن کر قابض ہو گا تو کھیتوں میں بھوک نہیں اُگے گی تو کیا اُگے گا۔ مجھ سے یہ بیزار، افسردہ اور پریشان حال نظریں پوچھتی ہیں کہ اللہ نے جو زمین اپنے بندوں کے لئے تسخیرکی ہے اس زمین کو ان فرعونوں سے چھڑوانے کے لئے کیاکوئی موسیٰ آئے گا؟ میں جواب دیتا ہوں، نہیں، ہر گز نہیں، کیونکہ جو قومیں ایسے لوگوں کا اپنا نمائندہ اور آقا بناتی ہیں جو ان کی داد رسی نہیں کرتا انکے لئے کوئی نجات دہندہ نہیں آیا کرتا۔ میں سوچتا ہوں کہ جس ملک کے برہمن نہریں نہ کھدنے دیں، اسکول نہ بننے دیں۔ سڑکیں نہ بننے دیں، بجلی نہ لگنے دیں، ٹریکٹر نہ چلنے دیں، ووٹ نہ ڈالنے دیں، مردم شماری نہ کرنے دیں اور گائوں میں اخبار نہ آنے دیں اور جس ملک میں 21 ویں صدی میں بھی فیوڈل ازم قائم ہو، ایسا نظام جس پر ساری دنیا میں پابندی لگ چکی ہو اس ملک کے لوگ گونگے، بہرے اور بے حس نہ بنیں تو پھرکیا بنیں۔ جس ملک میں جاگیرداری نظام پورے کروفر چے چل رہا ہو، وہاں بھوک، افلاس، جہالت اور بیماری نہ ہو تو کیا ہو؟
آج کی سیاست پر نظر ڈالیں تو حسین شہید سہروردی سے لیکر آج تک کی سیاست ایک دوسرے پر غداری اور ملک دشمنی کے الزامات سے بھری پڑی ہے۔ یہ الزام شیخ مجیب پر، بھٹو پر، بے نظیر پر اور اب نواز شریف پر بھی لگ چکا ہے لیکن اب فرق صرف یہ ہے کہ الزام لگانے والا اور الزام کے نشانے پر دونوں رہنمائوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ آج اکھاڑے کے اصل حریف عمران اور نواز شریف ہی ہیں۔ حکومت سے نادانستگی میں ایک غلطی یہ ضرور ہوئی کہ اس نے شہباز شریف کو پابند سلاسل کرکے مسلم لیگ نون کی سیاست میں چنگاری کو شعلہ بنا دیا، جس سے اس کے لئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ نواز شریف کی حالیہ تقریروں کا حوالہ دیکر انہیں غداری کا سرٹیفکیٹ تھمانے والوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ اس سے نواز شریف کے مقبولیت کو دھچکا پہنچا بھی یا نہیں۔ حکومت اگر واقعی اپوزیشن کاا حتجاج ناکام بنانا چاہتی ہے تو صرف غداری کے فتوے جاری کرنے کے بجائے عوام کو ریلیف دینے، مہنگائی کم کرنے اور معاشی و سماجی اصلاحات پر توجہ دینے پر غور کرے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو اپوزیشن سے رابطہ کرے اور اسے اس کا جائز مقام دے کم از کم یہ ادراک یا احساس ضرور پیدا کرے کہ اس کی دو سال کی کارکردگی سے عام پاکستانی خوش نہیں۔