اقتدار اکے ایوانوں کی اہم حکومتی شخصیت کے چہرے کے تاثرات اور لب ولہجے میں پریشانی و پشیمانی واضح طو ر پر عیاں تھی۔ ان گنت ملاقاتوں میں پہلی مرتبہ انہیں الجھا پایا۔ گفتگو گھوم پھر کر ایک ہی نکتے پر مرکوز ہونے لگتی کہ امورمملکت چلانے اورعوام سے کئے گئے وعدوں پرعملدرآمد میں بڑی رکاوٹ درپیش ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے احتساب کا نعرہ مستانہ تو بلند کیا، مگراس نعرے پر عمل درآمد کے ذمہ دار سول ادارے کے افسران کی استعداد کار اور نا اہلیت کے باعث کڑے احتساب کا نعرہ حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔
قارئین دل تھام لیں۔ جی ہاں! رواں ماہ ملکی تاریخ کے بہت بڑے اسکینڈل میں پلی بارگین ہونے جارہی ہے جس کی شرائط وضوابط طے پاچکی ہیں۔ ایک ایسا سکینڈل جس سے متعلق وزیراعظم عمران خان کے بیانات عوام کے اذہان پر نقش ہوچکے ہیں۔ احتساب کے ریپر میں لپٹی پلی بارگین کی یہ کڑوی گولی وزیراعظم خان اور ان کے ڈائی ہارٹ فالورز شاید برسوں تک نہ نگل سکیں مگر کہنے والے کہتے ہیں کہ اقتدار کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ تفصیلات منظر عام پر آئیں گی تو حکومت کی بہت لے دے ہوگی۔ اب جبکہ کورونا وائرس نے ملکی معیشت کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، اس کے مضمرات آئندہ چندما ہ کے دوران سامنے آئیں گے تاہم حکومت کو سیاسی میدان میں کورونا سے زیادہ سنگین مسائل کا سامنا ہے، جس سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم سمیت تمام رفقائے کار درمیانی راستہ نکالنے میں مصروف ہیں اور شنید یہ ہے کہ یہ راستہ جلد ایک نئے قانون کے ذریعے متعین کرلیا جائے گا۔ اپوزیشن کو دن رات ٹف ٹائم دینے والی حکومتی شخصیت کے جذبات اور احساسات نے میرے اوسان خطا کردئیے۔ صاف ظاہر ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت کو ایک مرتبہ پھر کئی یوٹرن لینا پڑیں گے، کاش کسی ایک بھی یوٹرن سے عوام کی مشکلات کم ہوتیں یا ملکی تقدیر سنورنے کی کوئی سبیل بنتی۔ اگر خواص کے دن پھرنے ہیں توپھر سمجھ لیجئے کہ آنے والے دن عوام کیلئے مزید مشکلات لانے والے ہیں۔ میرٹ پر کمپرومائز اوراقرباپروری کا فروغ ایک مرتبہ پھر پروان چڑھنے والا ہے۔ اس یو ٹرن کی "کتھا" یہ ہے کہ ایک کروڑ نوکریوں کے لالی پاپ سے روزگار کے متلاشی غریب نوجوانوں کو امید ملی تھی کہ اب کسی سیاست دان کی منت سماجت یا مافیا کو لاکھوں روپے ادا کئے بغیر نوکری حاصل کرسکیں گے۔ وفاقی حکومت کے ماتحت اداروں میں گریڈ 1سے گریڈ 5کے ملازمین کی 35ہزار سے زائد آسامیاں خالی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے ایک فیصلے نے سیاسی بنیادو ںپر بھرتیوں کی راہ بند کردی تھی اور گریڈ 1سے گریڈ 5کے ملازمین کوقرعہ اندازی کے ذریعے نوکریاں ملنا تھیں۔ بیلٹنگ سسٹم کے تحت امیدوار ٹیسٹ اور انٹرویو کے بغیر بھرتی کئے جانا تھے۔ کسی نوجوان کو کسی سیاست دان کا محتاج نہیں ہونا پڑنا تھا مگر اس پر "انصاف" کے علمبردار حکومتی ارکان پارلیمنٹ نے آسمان سر پر اٹھالیا کہ اس فیصلے سے ان کی سیاسی دکان بند ہو جائے گی۔ کیونکہ نوکریاں ہی تو وہ ڈگڈگی ہے جو سیاست دانوں کے ڈیروں پر رونق لگائے رکھتی ہیں۔ یہی نہیں سیاسی مخالفین کے ووٹرز، کی عقل ٹھکانے اور انہیں راغب کرنے کا روایتی سیاسی ہتھیار بھی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے فیصلے نے حکومتی واتحادی ارکان پارلیمنٹ کو ناختم ہونیوالی پریشانی سے دوچار کررکھاتھا۔ بالآخر گزشتہ ہفتے حکومتی واتحادی ارکان پارلیمنٹ کی کاوش رنگ لے آئی اور حکومت نے انتہائی خاموشی سے بیلٹنگ کے اپنے ہی فیصلے پر یوٹرن لے لیا۔ وفاقی کابینہ کے ارکان سے سمری سرکولیشن کے ذریعے منظور کرواتے ہوئے گریڈ 1سے5کے ملازمین کی بیلٹنگ کے ذریعے تقرری کا سسٹم ختم کردیا گیا ہے، میڈیا اورعوام کو کانوں کا ن خبر نہ ہوئی۔ اب اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو نئی پالیسی جاری کرنے کا ناد رشاہی حکم بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ پالیسی، فیصلہ سازی اور اس پر نظرثانی یقینی طورپر کسی بھی حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے۔ چاہے پھر ایسی نظرثانی کو پی ٹی آئی کی پہچان بن جانے والی ٹرم"یوٹرن" سے منسلک کردیا جاتا مگر ایسے یوٹرن عوامی مشکلات میں کمی کیلئے کیوں نہیں لئے جارہے۔
اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے 2020ء میں عوامی مشکلات بالخصوص مہنگائی ٹلنے اور خوشحالی کا دورشروع ہونے کی نوید دی تھی۔ کورونا کی تباہ کاریاں اپنی جگہ مگر وفاقی کابینہ کی جانب سے آئندہ مالی سالی کیلئے منظور کی گئی بجٹ حکمت عملی ہوش اڑا دینے والی ہے۔ وزارت خزانہ نے وفاقی کابینہ سے آئندہ مالی سال کیلئے 1ہزار ارب روپے اضافی ٹیکس عائد کرنے کی منظور ی حاصل کرلی ہے۔ اضافی ٹیکس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ عوام کمرکس لیں کیونکہ سرکارکے خزانے میں رواں مالی سال کے مقابلے میں 1ہزار ارب روپے زائد ٹیکس جمع کروانا ہوگا۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ کابینہ کو بتایا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران 3 ہزار 230 ارب روپے قرض اور سودکی ادائیگیوں پر خرچ ہوگا۔ ملک کو درپیش چیلنجز اور خطے کے صورتحال کے پیش نظر دفاعی بجٹ میں 248 ارب روپے اضافہ کرتے ہوئے 1 ہزار400 ارب روپے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ آئندہ سال کا مجموعی بجٹ 7 ہزار 600 ارب روپے کا ہوگا۔
لب لباب یہ کہ وزیراعظم عمران خان کیلئے کورونا وائرس سمیت سیاسی اورمعاشی چیلنجز مزید بڑھنے والے ہیں۔ بلند و بانگ حکومتی دعوؤں کے برعکس عوام کیلئے مشکلات ٹلتی نظرنہیں آرہیں۔ کورونا وائرس کے اثرات سے نکلنے کے لیے سیاسی میدان بھی خوب گرم ہوگا، اور اس گرما گرمی میں ملکی تاریخ میں کرپشن کے ایک بہت بڑے سکینڈل میں کی جانے والی پلی بارگین احتساب کے تابوت پر آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے۔