بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر حاصل خان بزنجوکی سیاست اچھی بھلی چل رہی تھی۔ پیپلز پارٹی، نون لیگ، اے این پی اور جے یو آئی ایف وغیرہ کو نجانے کیا سوجھی کہ بزنجو صاحب کو ایک ایسے یُد میں اُتار دیا جس کی فتح کا انھیں بھی یقین نہیں تھا۔
بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ شہباز شریف، آصف زرداری، اسفندیار ولی اور مولانا فضل الرحمن نے رَل مِل کر جناب حاصل بزنجو کا امن چین چھین لیا ہے۔ بزنجو صاحب بھی ان سب کے غچے میں آ گئے۔ متحدہ اپوزیشن نام کا ایک سیاسی گروہ ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔ اس گروہ نے حقیقی معنوں میں بزنجو صاحب کو سجّی دکھا کر کھبّی ماری ہے۔ ایک صریح دھوکا۔ ہمیں اب تک معلوم نہیں ہو رہا کہ سرد و گرم چشیدہ حاصل بزنجو ان سب کے دھوکے میںکیسے اور کیونکر آ گئے؟ بیٹھے بٹھائے ایک شریف آدمی کو پریشان کیا گیا ہے۔
سینیٹ میں حکومتی اُمیدوار صادق سنجرانی کے مقابلے میں حاصل خان بزنجو کو نام نہاد متحدہ اپوزیشن نے کھڑا تو بڑے برتے پر کیا تھا لیکن پھر خود ہی اُن کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی۔ اپنے عشاق سے کوئی ایسے بھی کرتا ہے! مقصد یہ تھا کہ حکومت کے محبوب صادق سنجرانی کے ہاتھ سے سینیٹ کی چیئرمینی چھین لی جائے۔ اور اگر ایسا ہو جاتا تو پی ٹی آئی اور عمران خان کی حکومت کو بھی نیچا دکھایا جاتا۔ سیاسی دُنیا کے فیصلے کرنے والوں نے مگر متحدہ اپوزیشن کے ٹولے کو شکست دے کر نیچا دکھا دیا اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ بساط ایسے اُلٹی جاتی ہے۔
ایک پنجابی محاورے کے مطابق، فاتحین نے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ جو پاجامہ سلواتے ہیں، وہ اجابت کے لیے بھی راہ رکھتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ شہباز شریف، آصف زرداری، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری، اسفندیار اور مولانا فضل الرحمٰن نے متحد اور یکمشت ہو کر میر حاصل خان بزنجو صاحب کو کن گناہوں کی سزا دی ہے؟ اور کیوں دی ہے؟
سینیٹ کے چیئرمین کو ہرانے کے لیے نام نہاد متحدہ اپوزیشن کو صرف 53 ووٹوں کی ضرورت تھی۔ ان کے پاس تو 64 ووٹ رکھنے کا دعویٰ اور غلغلہ تھا مگر "غلّے" سے صرف 50ووٹ برآمد ہُوئے۔ یکم اگست کی اُس دوپہر ملک بھر میں سناٹا تھا جب حاصل بزنجو کو متحدہ اپوزیشن نے " برہنہ" کر دیا تھا۔ اب کہا جا رہا ہے: کوئی بات نہیں، سیاست میں ایسا تو ہوتا رہتا ہے، اب آگے چلیں۔ آگے کیسے چلیں۔ بزنجو صاحب اپنے حلیفوں سے جواب مانگ رہے ہیں کہ مجھے اعتماد کی چمک دکھا کر بد اعتمادی کا داغ کیوں لگایا گیا ہے؟ اُن کے تمام گلے شکوے بجا اور جائز ہیں۔ سچ یہ ہے کہ میر حاصل خان بزنجو سے اپوزیشن کے قائدین نے اچھا نہیں کیا۔
شائد اِسی بے بسی اور بے کسی میں حاصل بزنجو غصے اور طیش میں تھے اور ہنوز غصے میں ہیں۔ انھوں نے ایک شرارتی اخبار نویس کے استفسار پر کہا تو سہی کہ وہ غصے میں نہیں ہیں لیکن دوسرے ہی لمحے غصے میں وہ الفاظ کہہ گئے جو نہیں کہنے چاہئیں تھے۔ یہ الفاظ ادا نہ کیے جاتے تو مناسب اور بہتر تھا۔ اُن کے الفاظ کا ردِ عمل بھی فوری آیا۔ ایسے جواب کا آنا فطری تھا۔
بزنجو صاحب کے بارے میں جو مطالبات کیے گئے ہیں، ان کے نتیجے میں گوجرانوالہ کی ایک مقامی عدالت نے بزنجو صاحب کو 8 اگست2019کو طلب بھی فرما لیا ہے۔ شنید ہے کہ فیصل آباد میں بھی اُن کے خلاف کسی نے مقدمہ کیا ہے۔ تین وفاقی وزرا (فواد چوہدری، مراد سعید اور پرویز خٹک ) نے حاصل بزنجو کے خلاف تیز و تند بیانات دیے ہیں۔ حکومت میں ہوتے ہُوئے شائد انھیں ایسے ہی بیانات دینے چاہئیں تھے۔
سوال یہ ہے کہ ان حالات میں حاصل خان بزنجو نے کیا حاصل کیا ہے؟ ایک بات تو شائد بالیقین کہی جا سکتی ہے کہ غصے میں انھیں اپنے جذبات پر کنٹرول رکھنا چاہیے تھا۔ بزنجو صاحب مبینہ طور پر سرطان کے مریض بھی ہیں۔ سینیٹ میں شکست کے فوراً بعد کراچی کے ایک نجی اسپتال سے اُن کا طبّی معائنہ اور ایمینو تھراپی کروانا اِسی کا مظہر ہے۔ وہ حزب ِ اختلاف کی جس متحدہ سازش کا شکار بنائے گئے ہیں، اس عمر اور مرض میں اپوزیشن کے سیاستدانوں کو اُن کے ساتھ یہ ظلم نہیں کرنا چاہیے تھا۔ داد دینی چاہیے بزنجو صاحب کو کہ بیماری کے باوجود کہہ رہے ہیں: مَیں نااہلی اور پانچ سال سزا کے لیے تیار ہُوں۔
سینیٹ میں بزنجو صاحب کی شکست کے پس منظر میں ایک انگریزی معاصر کی خبر اگر درست سمجھی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حاصل بزنجو صاحب کو دغا دینے والے دو سیاسی جماعتوں کے سینیٹرز ہیں۔ یہ مگر کون ہیں؟ اس بارے میں کچھ نہیںکہا جا سکتا کہ اس پر اسرار کی کئی تہیں پڑی ہیں۔ اگر شہباز شریف اور بلاول بھٹو میں ہمت اور جرأت ہو تو وہ ان دغا بازوں کے چہرے بے نقاب کرکے اپنی اپنی پارٹیوں سے نکال سکتے ہیں۔ عمران خان تو ایسی جرأت دکھا چکے ہیں۔ اب باری مذکورہ دونوں قائدین کی ہیں۔ کمیٹیاں تو بنا دی گئی ہیں لیکن کمیٹیوں سے کیا ہو گا؟
منحرف ہونے والوں کو شہباز شریف بھی جانتے ہیں اور بلاول بھٹو بھی پہچانتے ہیں۔ حاصل بزنجو کو اس لاحاصل کھیل سے کچھ بھی حاصل نہیں ہُوا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سینیٹ آف پاکستان کی عمارت میں کھیلے گئے اس کھیل سے ہماری جمہوریت بھی بے نقاب ہو گئی ہے اور جمہوریت کے نام کی مالا جپنے والے بھی۔ غریب اور بے بس پاکستانی عوام پر ایک بار پھر یہ بات پوری طرح عیاں ہوگئی ہے کہ جمہوریت کے اس تماشے میں اُن کے لیے کچھ نہیں رکھا۔
یہ کچھ سرمایہ داروں اور سرمایہ پرستوں کا کھیل ہے جو وہ اپنے متنوع مفادات کے حصول کے لیے عوام کے نام پر کھیلتے ہیں۔ اور جب ان کے کسی مفاد پر زَد پڑتی ہے اور انھیں ناکامی و نامرادی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے تو یہ ملک کے نام کو بٹّہ لگانے اور ذمے دار قومی اداروں کو موردِ الزام ٹھہرانے سے بھی باز نہیں آتے۔ آج ہمارے قومی اداروں کو جن عالمی سازشوں اور آزمائشوں کا سامنا ہے، ایسے میں تو ہمارے سیاست کاروں کو زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ سینیٹ میں شکست کھانے والوں میں سے بعض نے احتیاط کا دامن تھامنے سے انکار کیا ہے۔