وزیر اعظم پاکستان ایسے ماحول میں امریکا روانہ ہورہے ہیں جب عالمی عدالتِ انصاف نے کلبھوشن یادیو کے خلاف فیصلہ سنایا ہے اور جب پروفیسر حافظ سعید صاحب کو ضمانت کے خاتمے پر دوبارہ گرفتار کیا گیا ہے۔ جولائی کے پہلے ہفتے سرکاری اعلان کیا گیا کہ وزیر اعظم جناب عمران خان21 جولائی کو امریکی دَورے پر جا رہے ہیں۔ میڈیا میں یہ خبر بھی آئی تھی کہ اس کے بعد خان صاحب (ستمبر میں) رُوس جائیں گے کہ رُوسی صدر، پوٹن، کی طرف سے بھی ہمارے وزیر اعظم کو دعوت آئی ہے۔
لیکن جولائی کے دوسرے ہفتے اس امر کی تردید کر دی گئی کہ وزیر اعظم عمران خان رُوس جا رہے ہیں۔ یہ تردید سب سے پہلے رُوسی وزارتِ خارجہ کے شعبہ اطلاعات کی طرف سے جاری کی گئی۔ ستمبر2019 کے پہلے ہفتے رُوس کے مشرقی ساحلی شہر، ولاڈی واسٹک، میں ایسٹرن اکنامک فورم (EEF) منعقد ہوریا ہے۔ رُوسیوں نے کہا ہے کہ مذکورہ فورم میں وزیر اعظم پاکستان نہیں، صرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، منگولیا کے صدرایچ بٹلگا، ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد اور جاپان کے وزیر اعظم ایس ایبے شامل ہوں گے۔ پاکستانی وزیر اعظم کی "ای ای ایف" میں شرکت کی تردید کرتے ہُوئے رُوسیوں نے شائستگی کا لہجہ اختیار کیا ہے لیکن بھارتی میڈیا نے یہ خبر شایع کرتے ہُوئے حسبِ عادت شرمناک اسلوب میں پاکستان کی تضحیک کرنے کی ناکام جسارت کی ہے۔
وزیر اعظم کی حیثیت میں عمران خان کا یہ پہلا سرکاری دَورئہ امریکا اُن کے گزشتہ چار غیر ملکی سرکاری دَوروں میں شائد سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ ایک خبر میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عمران خان واشنگٹن میں تین روزہ قیام کے دوران کسی ہوٹل میں نہیں بلکہ امریکی دارالحکومت میں بروئے کار پاکستانی سفارتخانے میں قیام کریں گے۔ پاکستان کو رواں لمحوں میں جن شدید معاشی تنگدستیوں کا سامنا ہے، خان صاحب کو ایسا ہی فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔
9جولائی کو خان صاحب کے ایک وزیر، شفقت محمود، نے دھواں دھار پریس کانفرنس میں سابق وزیر اعظم (نواز شریف) اور سابق صدرِ مملکت( آصف زرداری)کے غیرملکی دَوروں پر خرچ ہونے والے مبینہ تین ارب روپے سے زائد اخراجات کا جس لہجے اور انداز میں ذکر کیا ہے، اس پس منظر میں تو اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ عمران خان پاکستانی سفارتخانے ہی میں ٹھہریں۔ کفایت شعاری کے نکتہ نظر سے یہ عمل مستحسن قرار دیا جائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان ایسے موقع پرواشنگٹن وارد ہورہے ہیں جب پاک امریکا کشیدگی میں کچھ کمی آئی ہے۔ جب (نہایت کڑی شرائط پر) آئی ایم ایف پاکستان کو 6ارب20کروڑ ڈالر کا قرضہ دینے پر رضامند ہو چکا ہے۔ جب امریکا نے بی ایل اے کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کر کے بھارتی عزائم کو جھنڈی دکھا دی ہے۔ جب "کرتار پور راہداری" کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے ساتھ ساتھ بیٹھنے کے امکانات مزید بڑھ رہے ہیں اور یہ منظر امریکا کے لیے بھی اطمینان بخش ہے۔
کرتار پور کوریڈور اور مسئلہ کشمیر کے معاملات کی بنیاد پر امریکی سرپرستی اور ایک امریکی تھنک ٹینک USIP (یونائٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیِس )نے جولائی کے دوسرے ہفتے اسلام آباد میں ایک دو روزہ کانفرنس بھی کروائی ہے جس میں بھارتی مندوبین نے بھی شرکت کی۔ یہ ٹریک ٹُو پالیسی کا حصہ ہے جس کے دروازے بھارتیوں نے بند کررکھے تھے۔ امریکی تھنک ٹینک کے زیر اہتمام پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود کشیدگی اور دُوریاں ختم کرنے کے لیے ایک مفید قدم اُٹھایا گیا ہے۔
دو دن پہلے، پانچ مہینوں کے بعد، پاکستان نے بھارتی مسافر طیاروں کے لیے اپنی فضائیں پھر سے کھول دی ہیں۔ اس کے باوصف ہمیں مگر کسی بریک تھرو اور امریکا سے بڑی توقعات وابستہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ امریکی صدر کو ناپیش گفتنی (unpredictable)کہا جاتا ہے۔ پَل میںماشہ، پَل میں تولہ۔ امریکا سے مگر کسی بھی تصادم یا ناراضی کو بھی ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔ ایران اور ترکی نے امریکا سے متصادم ہو کر کیا حاصل کر لیا ہے؟ ہماری تو ویسے بھی معیشت ان دونوں مسلمان ممالک سے کہیں کمزور ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ امریکا سے بہتر تعلقات ہی میں ہماری بہتری ہے۔
وزیر اعظم عمران خان صاحب کے دَورئہ امریکا سے قبل پاک، امریکا تعلقات میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر نئے نامزد کردہ امریکی عسکری قائد، جنرل مائک ملی، کا پاکستان سے مضبوط ملٹری تعلقات کی تجدید کا بیان۔ یاد رکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ پاک، امریکا تعلقات میں اگر بہتری کے کچھ آثار پیدا ہُوئے ہیں تو ان میں افواجِ پاکستان کا کردار کلیدی خیال کیا جا رہا ہے۔ اب خانصاحب امریکا روانہ ہو رہے ہیں تو بھی انھیں افواجِ پاکستان کی بھرپور اعانتیں میسر ہیں۔ اس لحاظ سے عمران خان ایک خوش قسمت وزیر اعظم ہیں۔
شنید ہے کہ عمران خان کے ساتھ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی امریکا جائیں گے اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی۔ گویا پاکستان کی طرف سے امریکی انتظامیہ سے ایک زبان میں بات ہوگی۔ اس مکالمے میں امریکیوں سے ایڈ کی نہیں ٹرید کی بات مرکزی نکتہ رکھتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ہماری فوجی قیادت کے جانے سے شائد افغانستان کے حوالے سے کوئی بڑا بریک تھرو سامنے آ سکے۔
ٹرمپ، عمران ملاقات میں شائد یہی موضوع ایجنڈے میں سر فہرست ہو۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے سال دوسری بار کے لیے صدارتی مہم میں کودنے سے پہلے افغانستان میں امریکی بوجھ سے نجات حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس دَورے کے پس منظر میں اُمید کی جارہی ہے کہ امریکا نے پاکستان کی جو فوجی امداد روک رکھی ہے، شائد یہ بھی بحال ہو جائے۔ دہشتگردی کے خلاف (کامیاب) جنگ لڑتے ہُوئے پاکستان نے جو اربوں روپے خرچ کیے ہیں، وہ بھاری رقم(CSFیعنی کولیشن سپورٹ فنڈز) ابھی تک امریکا نے پاکستان کو پوری ادا نہیں کی ہے۔
اگر وزیر اعظم عمران خان کی امریکی صدر سے ملاقات کلک کر جاتی ہے تو شائدCSFکی بقایا رقم بھی پاکستان کو مل جائے۔ خانصاحب کے دَورئہ امریکا سے قبل بلاول بھٹو زرداری بھی امریکا میں ہوں گے۔ بعض اطراف سے کہا جارہا ہے کہ بلاول صاحب، خانصاحب کا دَورہ ناکام اور خراب کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ہمیں ان بدگمانیوں سے بچنا چاہیے۔ سچی بات یہ ہے کہ ساری قوم عمران خان کے دَورئہ امریکا کے لیے دعا گو ہے۔ حالات اگر مناسب ہُوئے تو شائد وزیر اعظم صاحب امریکیوں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بھی بات چیت کریں۔ اہم سوال مگر یہ بھی ہے کہ خانصاحب کا یہ دَورہ کس کیٹگری کا ہے؟ انھیں واشنگٹن میں کیسا پروٹوکول دیا جائے گا؟
امریکی دَورے پر جانے اور صدرِ امریکا سے ملنے والے غیر ملکی صدور اور وزرائے اعظم کے لیے امریکی پروٹوکول بھی مختلف ہیں۔ یہ پروٹوکول چار قسم کے ہیں اور مدعو مہمان کی حیثیت کے پیشِ نظرامریکی محکمہ خارجہ یہ طے کرتا ہے کہ کس مہمان کو کس پروٹوکول سے نوازنا ہے۔ یہ چارپروٹوکول یوں ہیں:سب سے اہم ترین "اسٹیٹ وزٹ" کہلاتا ہے، دوسرے نمبر پر "آفیشل وزٹ" ہوتا ہے، تیسرے درجے پر " آفیشل ورکنگ وزٹ" اور چوتھے نمبر پر " ورکنگ وزٹ" آتا ہے۔
ہماری وزارتِ خارجہ پاکستانی عوام کو ابھی تک یہ بتانے سے قاصر ہے کہ ہمارے محبوب وزیر اعظم کا یہ دَورئہ امریکا کس کیٹگری میں آرہا ہے اور انھیں کس پروٹوکول سے نوازا جائے گا؟ عمران خان کے اس دَورئہ امریکا کے موقع پر خان مخالف قوتیں عالمی میڈیا میں منفی پروپیگنڈہ کرنے سے باز نہیں آئی ہیں۔ مثلاً: 17جولائی2019 کو "نیویارک ٹائمز" کے ادارتی صفحے پر شایع ہونے والا تازہ ترین بہتانی آرٹیکل۔ اس آرٹیکل کی روشنی میں شائد امریکی میڈیا عمران خان سے بعض سخت سوالات بھی پوچھ لے۔