آج سے دو دن بعد، 17جولائی کو بھارتی جاسوس، کلبھوشن یادیو، کے بارے میں فیصلہ سامنے آنے والا ہے۔ ہیگ (نیدر لینڈز) میں واقعے عالمی عدالتِ انصاف ( ICJ) یہ فیصلہ سنائے گی۔ پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اور عوام اس اہم فیصلے کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔
کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر تھا لیکن وہ بھارتی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کررہا تھا۔ تین سال اور چار ماہ پہلے اُسے رنگے ہاتھوں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ایک مسلمان نام (حسین مبارک پٹیل) کے پاسپورٹ پر ایران سے پاکستان میں داخل ہُوا تھا۔ گرفتاری کے وقت ہی ثابت ہو گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو جعلی نام کے حامل پاسپورٹ پر پاکستان میں کئی بار آ جا چکا ہے۔ وہ تاجر کے رُوپ میں پاکستان کے خلاف خونریز کارستانیوں میں ملوث تھا۔
چونکہ چور کی ڈاڑھی میں ہمیشہ تنکا ہوتا ہے، اس لیے گرفتاری کے بعد تفتیشی مراحل ہی میں مان گیا کہ ہاں وہ پاکستان کے خلاف جاسوسی کارروائیوں میں عملی طور پر حصے دار رہا ہے، اور یہ کہ وہ دو ناموں سے کام کرتا رہا ہے، یہ کہ وہ بھارتی بحریہ کا افسر ہے وغیرہ وغیرہ۔ اُس کے اعترافاتِ جرم ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے ساری دُنیا میں سُنے جا چکے ہیں۔ اس خطرناک بھارتی جاسوس کی گرفتاری پاکستانی اداروں کی زبردست کامیابی تھی۔
چاہیے تو یہ تھا کہ اسے فوری طور پر جہنم رسید کر دیا جاتا لیکن کلبھوشن یادیو کا مقدمہ پاکستان کی ایک ملٹری کورٹ میں چلایا گیا اور اُسے صفائی دینے اور اپنا موقف پیش کرنے کے پورے مواقع فراہم کیے گئے۔ ٹھوس شہادتوں کی بنیاد پر اُسے سزائے موت سنائی گئی۔ ظاہر ہے بھارت نے اس پر شور مچانا تھا۔ سو اُس نے مچایا۔ دُنیا بھر کا قاعدہ ہے کہ جاسوسوں کو قونصلر رسائی نہیں دی جاتی لیکن پاکستان نے از راہِ انسانی ہمدردی کلبھوشن کی والدہ اور اہلیہ کو ملنے کی اجازت بھی دی جسے دُنیا بھر میں سراہا گیا۔ بھارت مگر پھر بھی مطمئن نہ ہُوا۔ اُسے اطمینان تب ہی مل سکتا ہے جب کلبھوشن کو رہا کر دیا جائے۔ ایسا کرنا شائد ممکن نہیں ہے۔
یہ بھارت ہی ہے جو پاکستان میں تباہی پھیلانے والے اپنے جاسوس کا مقدمہ عالمی عدالتِ انصاف میں لے گیا تھا۔ مقدمہ جیتنے کے لیے پاکستانی وکیل نے بھی زور لگایا ہے اور بھارتی وکیل نے بھی پوری توانائی خرچ کی ہے۔ جن لوگوں نے مقدمے کی کارروائی خود سُنی اور دیکھی ہے یا اس کی رپورٹنگ کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا ہے، سب کا کہنا ہے کہ بھارتی وکیل کے دلائل کمزور اور بودے ہیں۔
کسی کے بھی علم میں نہیں ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کلبھوشن کے بارے میں کیا فیصلہ سنانے والی ہے۔ بس اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں۔ پہلا اندازہ اور قیافہ یہ ہے کہ فیصلہ پاکستان کے حق میں آئے گا۔ پاکستان نے بھارت اور کلبھوشن یادیو کے خلاف اپنے وکیل کے توسط سے ٹھوس اور ناقابلِ تردید شواہد پیش کیے ہیں۔ یہ شواہد دہشتگردی کی متعدد وارداتوں اور جرائم کی شکل میں ہیں جن میں یہ بھارتی جا سوس مرکزی کردار ادا کرتا صاف نظر آتا ہے۔
بھارت وہ ملک ہے جو پاکستان سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک میں اپنے جاسوسوں کے ذریعے دہشتگردی کرواتا ہے اور پھر ان پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹ کے انبار لگا دیتا ہے۔ پاکستان تو بھارت کا خاص ہدف ہے۔ کلبھوشن یادیو، سربجیت سنگھ، روندر کو شک اور کشمیرا سنگھ وہ بھارتی جاسوس ہیں جو دہشتگردی کی غرض سے بھارت نے پاکستان بھجوائے۔ ان سب نے ہمارے ملک میں لاتعداد خونی سانحات کو جنم دیا اور پھر اپنے کرتوتوں کے سبب ایک روز دَھر لیے گئے۔ پاکستان کے بعد سری لنکا وہ بدقسمت بھارتی ہمسایہ ملک ہے جہاں بھارتی خفیہ ایجنسیاں دہشتگردی کرواتی ہیں اور کرواتی رہی ہیں۔
ساری دُنیا پر عیاں ہے کہ سری لنکا کی دہشتگرد تنظیم "ایل ٹی ٹی ای" کو اسلحہ، سرمایہ اور تربیت بھارت اور "را" فراہم کرتا تھا۔ اس کی شہادت خود کئی بہادر بھارتی مصنف بھی دیتے ہیں۔ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ "را" ہمارے صوبہ سندھ میں بھی شیطانیاں اور شرارتیں کرتی اورکچھ قوم پرست گروہوں کو پاکستان کے خلاف ابھارنے اور نعرہ زَن ہونے پر اکساتی رہی ہیں۔ دہشتگرد تنظیم "ٹی ٹی پی" کی اعانت کاری میں بھی بھارتی ہاتھ کارفرما تھا۔
پشاور آرمی پبلک اسکول میں درجنوں معصوم بچوں کے "ٹی ٹی پی" کے ظالمانہ ہاتھوں سے قتل کے سانحہ پر بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے جو جشن منایا تھا، ہم سب پاکستانی اسے بھُولے نہیں ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ پاکستان دشمن بھارتی جاسوس بارے17جولائی کو فیصلہ سنانے والی عالمی عدالتِ انصاف بھی یقیناً بھارت کے ان شرمناک ہتھکنڈوں سے واقف ہوگی۔
کلبھوشن یادیو بارے عالمی عدالتِ انصاف کی طرف سے سنائے جانے والے فیصلے میں دوسرا امکان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عدالت مذکور یہ حکم دے کہ بھارتی سزا یافتہ مجرم جاسوس کو قونصلر رسائی دی جائے۔ اگر ایسا ہُوا تو یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ کسی ایسے مستند جاسوس اور تخریب کار کو قونصلر رسائی نہیں دی جاتی جو دہشتگردی کی کئی وارداتوں میں ملوث رہا ہو۔ عالمی عدالتِ انصاف میں مقدمہ مذکور میں پاکستانی وکیل ماضی میں کیے گئے کئی تاریخی فیصلوں کی مثالیں پیش کرکے ثابت کر چکے ہیں کہ ایسے مجرموں کو یہ رسائی دی ہی نہیں جا سکتی۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ عالمی عدالتِ انصاف کی پچھلے چھ عشرے کی تاریخ میں بھارت پہلا ملک ہے جس نے عدالت مذکور سے ویانا کنونشن کی روشنی میں اپنے جاسوس کے لیے اس رسائی کا مطالبہ کیا ہے۔
فرض کیا کہ ICJ ایسا فیصلہ صادر کر بھی دیتی ہے تو اس پر عمل درآمد 1982اور 2008 کے دو طرفہ پاک بھارت معاہدوں یا پاکستان کے مروجہ قومی قوانین کے مطابق ہونا چاہیے، نہ کہ عالمی عدالتِ انصاف کے اپنے قوانین کے مطابق۔ فرض کیا کہ ویانا کنونشن کے مطابق یہ قونصلر رسائی مجرم کلبھوشن یادیو کو دے دی جاتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوگا کہ کلبھوشن کا مقدمہ ختم ہو جائے گا یا اُسے باعزت رہا کر دیا جائے گا۔ حیرانی کی بات ہے کہ 2017ء تک تو بھارت کلبھوشن کو اپنا شہری ہی تسلیم کرنے پرتیار نہیں تھا۔
کلبھوشن یادیو کے بارے میں عالمی عدالتِ انصاف کی طرف سے سنائے جانے والے فیصلے کے بارے میں تیسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ بھارتی جا سوس کا مقدمہ پاکستان کی ملٹری کورٹ کی بجائے ( نئے سرے سے) سول کورٹ میں چلایا جائے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ آئی سی جے میں بھی ٹھوس شواہد پیش کیے گئے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ کلبھوشن "صاحب" پاکستان میں رنگے ہاتھوں گرفتاری کے وقت بھارت کا حاضر سروس فوجی افسر تھا؛ چنانچہ فطری طور پر اُس کے خلاف ملٹری کورٹ ہی میں مقدمہ چلنا چاہیے، جیسا کہ چلایا بھی گیا۔ پاکستان کو بھارتی وکلا کے اس اعتراض کی قطعی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ ایسا جاسوس جس نے لاتعداد پاکستانی شہریوں کو قتل کیا یا کروایا، وطنِ عزیز کی دفاعی تنصیبات کو سخت نقصان پہنچایا اور متعدد دہشتگردی کے سانحات میں ملوث رہا، ایسا شخص نہ تو قابلِ معافی ہے اور نہ ہی اُس سے کوئی رعایت برتی جا سکتی ہے۔