آزادی کی پہچان، اگست کا مہینہ طلوع ہو چکا ہے۔ اسی مہینے میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ہمیں انگریز سامراج کی غلامی اور ہندوؤں کی عددی و معاشی بالادستی سے نجات دلا کر ہم پر احسانِ عظیم کیا تھا۔ پاکستان کی شکل میں قائد اعظم ؒ کی عطا کردہ نعمت کا ہمیں جس قدر شکر گزار ہونا چاہیے تھا، شاید ہم نہیں ہو سکے۔ اگر ہم صحیح تر قدر دان ہوتے تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ وہ اگست ہی کا مہینہ تھا جس کی 11 تاریخ کو حضرت قائد اعظم علیہ رحمہ نے اپنا تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔
کچھ الفاظ یوں تھے: "آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاستِ پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ " یہ دمکتے الفاظ دراصل ہماری پاکستانی اقلیتوں کو آزادانہ زندگی گزارنے کی حقیقی یقین دہانی تھی۔ شومئی قسمت سے ہمارے ہاں بعض لوگوں نے یہ بھی کوشش کی کہ بانیِ پاکستان کے ان تاریخی الفاظ کو غائب کر دیا جائے۔ لاریب حضرت قائد اعظم ؒ کے الفاظ ایسے تو نہیں تھے کہ کسی کی کوشش اور نیت کے بھینٹ چڑھ جاتے۔ یہ الفاظ آج بھی پوری توانائی کے ساتھ زندہ ہیں۔
یوں تو ہمارے ہاں عمومی طور پر پاکستان کے سبھی حکمرانوں نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی ہے لیکن جس بلند آہنگ اور غیر مبہم الفاظ میں وزیر اعظم عمران خان ہماری اقلیتوں کے حقوق کی بات کہتے سنائی دے رہے ہیں، شاید یہ لہجہ پاکستان کے کسی بھی سابق حکمران کا نہیں رہا۔ جناب نواز شریف نے بھی اپنے تیسرے دورِ اقتدار میں وطنِ عزیز کی اقلیتوں کے ساتھ کھڑے رہنے کی باتیں کی تھیں لیکن اُن کے الفاظ بعض لوگوں کو پسند نہیں آئے تھے۔ اقلیتوں کے لیے اُن کے محبت بھرے الفاظ کی اساس پر اُن کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا طوفان برپا کرنے کی کوششیں بھی بروئے کار آئیں۔ جناب عمران خان خوش بخت ہیں کہ اُن کے لیے سارے میدان کھلے اور صاف ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کسی بھی خوف سے بالا تر رہ کر وطنِ عزیز کی اقلیتوں کے تمام آئینی حقوق کا تحفظ کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی کرتار پور صاحب راہداری کا بیانیہ سامنے آیا۔ اس بیانیے کے عقب میں ہمارے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اور تمنا بھی کار فرما تھی۔ پنجاب کے ضلع نارووال اور تحصیل شکر گڑھ میں واقع سکھوں کے مقدس مقام، کرتار پور صاحب، کو پاکستانی و بھارتی سکھ کمیونٹی کے ساتھ ساتھ ساری دُنیا میں بسنے والی سکھ برادری کے لیے کھولنا اور یاتریوں کو یہاں جدید ترین سہولتیں فراہم کرنا کوئی معمولی اقدام نہیں ہے لیکن عمران خان کی حکومت اور ہماری سیکیورٹی فورسز اس پراجیکٹ کو ایک خاص مدت سے پہلے پہلے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم بالجزم رکھتی ہیں۔ اس پر اربوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے۔
پاکستان ایسے عسرت زدہ ملک کے لیے اتنا روپیہ خرچ کرنا اتنا آسان بھی نہیں تھا لیکن سکھوں کی خوشی اور خوشنودی کے لیے یہ مالی بوجھ بھی مملکتِ خداداد ہنسی خوشی برداشت کر رہی ہے۔ راقم چند دن پہلے ہی کرتار پور صاحب پراجیکٹ دیکھ کر آ رہا ہے۔ یقیناً کرتار پور صاحب راہداری، جسے بھارتی سرحد تک منسلک کیا جانا ہے، کی تکمیل سے دُنیا بھر میں پاکستان کا چہرہ روشن ہو گا۔ وطنِ عزیز میں مذہبی سیاحت کو بھی خوب فروغ ملے گا۔ پُر امن پاکستان کا پیغام مستحکم ہو گا۔ یہ پیغام دُور و نزدیک پہنچے گا کہ پاکستان میں ساری اقلیتیں نہ صرف خوش اور مطمئن ہیں بلکہ انھیں اپنی عبادت گاہوں میں جانے اور اپنی مرضی سے عبادت کرنے کی بھی پوری آزادی میسر ہے۔
پاکستانی پنجاب میں سکھوں کے ایک اور مقدس مقام، ننکانہ صاحب، کی نئے سرے سے جو شاندار تزئین و آرائش ہو رہی ہے، یہ بھی اقلیتوں کے لیے عمران خان کے جذبہ ہمدردی کو اجاگر کرتی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ، اعجاز شاہ، کا حلقہ انتخاب بھی ننکانہ صاحب ہی ہے۔ وزیر اعظم کے حکم پر وہ بھی سکھ یاتریوں کو سہولتیں فراہم کرنے اور اُن کی سیکیورٹی کی طرف خاص توجہ دے رہے ہیں۔ پنجاب وقف املاک بورڈ (ETPB) کے ایک معزز رکن، سید ضیاء النور، نے میرے استفسار پر بڑے فخر اور مسرت سے بتایا کہ ننکانہ صاحب کو سکھ یاتریوں کے لیے اسٹیٹ آف دی آرٹ کی شکل دی جا رہی ہے۔
انھوں نے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے خانصاحب اور عثمان بزدار کی حکومتوں کے اقدامات کی جو قابلِ تحسین تفصیلات مجھے بتائیں، کالم میں جگہ ہوتی تو اس کا ذکر بھی ضرور کرتا۔ سید ضیا ء النور صاحب کا یہ کہنا بھی قابلِ ذکر ہے کہ پنجاب میں سکھوں اور ہندوؤں کی عبادت گاہوں سے منسلک بہت سی جائیدادوں پر کیے گئے قبضے بھی چھڑوائے جا رہے ہیں۔ اگرچہ قابضین کا مقابلہ کرنا کچھ سہل بھی نہیں ہے۔ نواز شریف کے دَور میں تو اس سلسلے میں گولیاں چل گئی تھیں۔ پاکستان وقف املاک بورڈ کے چیئرمین بمشکل بچے تھے۔ یہ جائیدادیں واگزار کروانے سے وقف املاک بورڈ کی اپنی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ یوں سکھوں اور ہندوؤں کی ویران اور بے آباد ہونے والی عبادت گاہوں کی بحالی اور ان کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کے کام بھی آسان ہو جائیں گے۔
پاکستانی اقلیتوں کے لیے عمران خان کا یہ کارنامہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ سیالکوٹ شہر میں ہندوؤں کے ایک ہزار سالہ قدیم مندر ( شوالہ تیجا سنگھ) کو پھر سے کھول دیا گیا ہے۔ یہ عملی اقدام 28 جولائی2019 کو سامنے آیا ہے۔ یہ پُر شکوہ مندر پچھلے 72 سال سے بند پڑا تھا۔ اس کی بحالی اور پھر سے اس کے بند دروازے ہندوؤں پر کھولنے سے پاکستان میں ہندو برادری کے لیڈر، سریندر کمار، نے خصوصی طور پر وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ یہ ایسی غیر معمولی خبر ہے کہ سعودی عرب کے معروف انگریزی اخبار "عرب نیوز" نے بھی اسے اپنے صفحہ اوّل پر شایع کیا ہے۔
شوالہ تیجا سنگھ مندر میں 5 اگست2019 کو سیالکوٹ میں بسنے والے 100ہندو خاندانوں کو باقاعدہ داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ پانچ اگست کو خاص اس لیے کہ اس تاریخ کو ہندو "ناگ پنچمی دیوتا" کا میلہ لگاتے ہیں۔ سیالکوٹی ہندوؤں کے لیے اس تقریب کا اہتمام ڈپٹی کمشنر بلال حیدر کر رہے ہیں۔ یہ بھی خبر ہے کہ تھر ( سندھ) کے صحراؤں میں برباد ہوتے قدیم و تاریخی جین مندروں کی بحالی بھی کی جانے والی ہے۔ اس پس منظر میں وزیر اعظم عمران خان جب واشنگٹن میں اعتماد کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اُن کی حکومت میں پاکستانی اقلیتوں کا سب سے زیادہ خیال رکھا جا رہا ہے تو اُن کے اس دعوے کو سنجیدگی سے سُنا گیا ہے۔ چند دن پہلے بھی جناب عمران خان نے ایوانِ صدر میں منعقدہ اقلیتوں کے قومی دن کی تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے پاکستان کی تمام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور اُن کے حقوق پورے کرنے کے حوالے سے جو شاندار گفتگو کی ہے، اس کی بازگشت بھی ساری دُنیا میں سُنی گئی ہے۔