عمر شیخ کی رہائی پر امریکا نے کہاکہ پاکستانی سپریم کورٹ کا فیصلہ دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے تمام افراد کی توہین ہے۔ بندہ ان سے پوچھے امریکی عدالت عافیہ صدیقی پر دہشت گردی کا جرم ثابت نہ کر سکی، اس کے باوجود ایک پاکستانی شہری کو چھیاسی برس کی سزا امریکہ کی توہین نہیں؟ پاکستان کی توہین نہیں؟ انسانیت کی توہین نہیں؟ عدل و انصاف کی توہین نہیں؟ امریکہ کے اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل'سے وابستہ صحافی ڈینئل پرل کو کراچی میں جنوری 2002ء میں اغوا کیا گیا تھا جس کی لاش اسی سال مئی 2002 میں برآمد ہوئی تھی۔ اس کیس میں پولیس نے چار ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان میں سے تین کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جب کہ مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کو قتل اور اغوا کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ سال سندھ ہائی کورٹ نے چاروں ملزمان کو قتل کے الزام میں بری کر دیا تھا۔ جب کہ احمد عمر شیخ کو ڈینئل پرل کے اغوا کے الزام میں سات سال قید کی سزائی سنائی گئی تھی۔ اور یہ سزا پوری کرنے پر انہیں بھی رہا کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ اب خبر آئی ہے کہ کراچی میں 2002 میں قتل ہونے والے امریکی صحافی ڈینئل پرل کیس میں ملوث مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو پاکستانی حکام نے لاہور منتقل کر دیا ہے۔ جبکہ حکومت نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا تھا کہ یہ تمام افراد انتہائی خطرناک ہیں اور ان کی رہائی اور آزادانہ نقل و حرکت ملکی سالمیت کے لیے مزید مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ احمد عمر شیخ کے والدین کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ ان سے ملنے کراچی سینٹرل جیل آتے تھے۔
عدالت نے اپنے احکامات میں کہا تھا کہ ان چاروں افراد پر مزید کوئی الزام نہ ہونے پر قید میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ عمر شیخ کی رہائی پر امریکہ نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے نزدیک امریکی شہری کی زندگی کی قیمت ہے مگر پاکستانی شہری عافیہ صدیقی جیسوں کی کوئی اہمیت نہیں؟ کچھ سیاسی حلقے یہ بدگمانی پھیلانے کی کوشش کرتے چلے آ رہے ہیں کہ عافیہ صدیقی کی رہائی پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی اجازت سے مشروط ہے۔ اگر یہ سچ مان لیا جائے تو سیکیورٹی اداروں کو عمر شیخ کی رہائی پر بھی اعتراض ہونا چاہئے تھا جبکہ عدلیہ کے فیصلے پر کوئی ادارہ اثر انداز نہیں ہو سکا اور نہ امریکہ کے رد عمل کی پرواہ کی گئی۔ عمر شیخ امریکی نہیں پاکستانی شہری ہے، پاکستان کی عدالت نے آزادانہ فیصلہ سنادیا۔ امریکی عدالت چاہتی تو عافیہ صدیقی جو کہ امریکی شہری بھی نہیں پاکستانی شہری ہے کو آزاد کر کے غیر متعصب ہونے کا ثبوت دے سکتی تھی۔ جب امریکہ نے ایک پاکستانی شہری کو، جس پر دہشت گردی یا قتل ایسے سنگین جرائم بھی ثابت نہیں ہو سکے چھیاسی برس کی سزا سنا کر ظلم اور بے انصافی پر مہر ثبت کر دی۔ اس کے بعد پاکستان کی عدالت سے اپنی مرضی کا فیصلہ منوانے کاکیوں کرحقدار ہو سکتا ہے۔
امریکی شہری انسان ہوتا ہے تو پاکستانی انسان نہیں ہوتا؟ سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی تین حکومتوں کے دوران کسی نے بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے کوشش نہیں کی آخر کیوں؟ جواب سادہ ہے کہ پاکستان پر انہی گوروں کے غلام قابض ہیں اور جب ان سے عافیہ صدیقی کی رہائی کا سوال اٹھائو تو پاکستان کے سکیورٹی اداروں پر انگلی اٹھا دیتے ہیں۔ عمر شیخ کی رہائی اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی ادارے عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے یا امریکہ کا ڈر ہوتا تو عمر شیخ لاہوراپنے خاندان میں آزاد زندگی نہ گزار رہا ہوتا۔ یہ پاکستان کی حکومتیں ہیں جنہوں نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے کبھی کوشش کی ہی نہیں۔ صدر بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے سرکاری ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکا عمر شیخ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے تیار ہے کیونکہ وہ اس کے ایک شہری کے خلاف بھیانک جرائم میں ملوث ہے۔
بیان کے مطابق "ہم پرل خاندان کے لیے انصاف کے حصول اور دہشت گردوں کو جوابدہ بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔"کیا پاکستانی حکمرانوں کی زبانیں گنگ ہو چکی ہیں بول۔ نہیں سکتے کہ ایک پاکستانی شہری کوامریکہ کے عقوبت خانے میں کس سنگین قتل کے جرم کی سزا مل رہی ہے اور کیا اس مظلوم عورت کا خاندان نہیں؟ بوڑھی بیمار ماں بستر پر پڑی ہے، دو بچے ماں کی راہ تک رہے ہیں جبکہ شیر خوار آج تک لا پتہ ہے۔ مگر جناب جو درد ملا اپنوں سے ملا غیروں سے شکایت کون کرے؟