قرطبہ کی اجڑے چمن کی خاموش اذانوں اور سجدوں سے محروم فرش پر بیٹھی اپنے درخشاں ماضی پر آنسو بہانے سے کیا حاصل ہوتا ہے۔ اُمت کے اعمال کردار افکار تو مزید بگڑتے جارہے ہیں۔ ملاگا، جبل الطارق، غرناطہ اور قرطبہ کے سفر نے جہاں تاریخی مقامات دیکھنے کا موقع دیا وہاں دل کو مغموم کر دیا۔ امت کی شان مسجد قرطبہ اور موجودہ کتھیڈرل قرطبہ کے سامنے ہوٹل میں ہمارا قیام تھا مگر کوئی ویرانی سی ویرانی محسوس ہوئی۔ نہ اذان کی آواز سنائی دی نہ حرم قرطبہ میں سجدوں کی رونق نظر آئی۔
علامہ اقبال واحد مرد قلندر تھے جنہیں سقوط قرطبہ کے بعد اس کلیسا میں اذان اور سجدے کی اجازت مل سکی۔ اس درویش نے قرطبہ کے عشق میں کیفیات سے بھر پور کلام جو لکھ ڈالا اس کو محسوس کرنے والے قلوب بھی اب نہیں رہے۔ جس عمارت کے میناروں سے کبھی اذانیں گونجا کرتی تھیں، آج وہاں چرچ کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے۔ مسلم حکمرانوں نے ہمیشہ غیر مسلموں کی جان مال اور رسوم و رواج کا احترام کیاہے، مذہبی عبادات کی اجازت دی مگر غیر مسلم بادشاہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ شرمناک برتائو رکھا۔
مسجد قرطبہ میں مسجد نبوی کی طرز کے ستون بنائے گئے جو آج بھی قائم ہیں۔ عرب فاتحین کا یہ قاعدہ رہا تھا کہ وہ جہاں کہیں فاتح بن کر جاتے وہاں کی علاقائی تہذیب و ثقافت کو اپنا لیتے اور اپنی تعمیرات میں اس علاقہ کی طرز تعمیر کے خدو خال کو شامل کر لیتے۔ اندلس میں انھوں نے یکسر ایک نیا رویہ اپنایا اور ایک ایسی نئی طرز تعمیر کے موجد بنے جس میں عرب، ہسپانوی، صیہونی اور اندلس کی دیگر اقوام کی خصوصیات یکجا نظر آتی ہیں۔
جامع مسجد قرطبہ کی طرز تعمیر میں قدیم اسلامی طرز تعمیر صیہونی اور مسیحی طرز تعمیر کے نئے امتزاج کے ساتھ بنائی گئی۔ قرطبہ وہی جامع مسجد ہے، جس کی تعمیر عبد الرحمان اوّل الداخل نے 8ویں صدی کے اواخر (786ء) میں شروع کی۔ یہ مسجد وادی الکبیر میں دریا کے پل پر اس جگہ تعمیر کی گئی، جہاں پہلے سیگرجا گھرموجود تھا۔ اس کاکچھ حصہ مسلمان پہلے ہی بطور مسجد استعمال کر رہے تھے، چنانچہ عبدالرحمان اوّل الداخل نے بہت بھاری قیمت ادا کرکے باقی گرجا بھی عیسائیوں سے خرید لیا اور پھر مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔
یہ شاندار مسجد صرف دو سال کی قلیل مدت میں تیار ہوئی اور اِس کی تعمیر پر 80ہزار دینار خرچ ہوئے۔ اِس کے بعد 10ویں صدی تک ہر آنے والے مسلم حکمران نے مسجد کی تزئین و آرائش اور توسیع میں اپنا حصہ ڈالا۔ اندلس میں مسلم حکومت کے خاتمے کے بعد، دوسری مساجد کی طرح مسجد قرطبہ بھی عیسائی راہبوں کے تسلط میں آگئی۔ 1246ء میں اسے گرجا گھر میں بدل دیا گیا۔ جہاں عیسائیوں کو عبادت کی اجازت ہے، لیکن مسلمانوں کے لیے مسجد میں اذان دینے اورنماز کی ادائیگی پر آج بھی پابندی عائد ہے۔ 1931ء میں شاعر مشرق علامہ اقبال وہ پہلے فرد تھے، جنھوں نے آٹھ سو سال بعد قرطبہ کی جامع مسجد میں پابندی کے باوجود اذان دی، نماز ادا کی اورہچکیوں میں مسجد قرطبہ، کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم بھی لکھی۔
اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود"۔ عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود۔ تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل۔ وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل۔
اقبال 1932ء میں لندن تشریف لے گئے تاکہ تیسری گول میز کانفرنس میں شریک ہوسکیں جو برطانوی حکومت نے اپنے زیرنگیں خطے ہندوستان کے آئین میں اصلاح کی غرض سے تبادلۂ خیال کے لیے منعقد کی۔ اس سفر سے واپسی پر وہ اسپین میں ٹھیر گئے اور انہوں نے وہاں ان آثار کو دیکھا جو اندلس کی عظمتِ رفتہ کے شاہد تھے۔ اسپین کے اس دورے سے وہ بے حد متاثر ہوئے، خاص طور پر مسجد قرطبہ نے ان کے قلب و ذہن پر ایسے اثرات چھوڑے کہ ان کے خیالات اور جذبات اسی مسجد پر مرکوز ہوگئے۔
علامہ اقبال کے لئے مسجد قرطبہ اور ہسپانیہ ایک مقدس اور خصوصی جگہ ہے۔ یہ طویل نظم علامہ نیقرطبہ (ہسپانیہ) کے دورانِ قیام میں اس اجڑے ہوئے دیار کی جامع مسجد کی زیارت کے بعد لِکھی۔ یہ مسجد صدیوں سے محرومِ اذاں ہونے کے باوجود آج بھی تمام دنیا کی مساجد کا سرتاج ہے۔
مسجد قرطبہ دیکھنے میں تو ایک عمارت ہے مگر یہ مسلمانوں کی ناکامی اور ان کی اسلام سے روگردانی کا ایک بہت بڑا جیتا جاگتا ثبوت بھی ہے۔ اللہ نے اپنی پاک کتاب قران پاک میں بھی مسلمانوں کو واضح کیا ہے کہ جب تک تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو تم دنیا کی ایک مضبوط قوم بنے رہو گے، آج مسجد قرطبہ میں عیسائی عبادت کرتے ہیں مگر یہ عمارت جب تک دنیا میں قائم رہے گی یہ مسلمانوں کے منہ پر ایک طمانچہ کی صورت میں موجود رہے گی۔ سقوط غرناطہ اور زوال قرطبہ مسلمانوں میں نا اتفاقی اور ایمان کی کمزوری کی علامات بن چکی ہیں۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قراں ہو کر