نوے کی دہائی کی بات ہے ان دنوں ہم ریاست اوہائیو کے شہر کلیو لینڈ میں مقیم تھے۔ افغان جنگ سے متاثرہ خاندان امریکہ لائے گئے تو ہم بھی ان سے ملاقات کو جایاکرتے۔ کمیونٹی خدمات کا نشہ مہاجرین کے پاس بھی لے گیا۔ اس افغان بوڑھی خاتون کا ہچکیوں میں بھیگا جملہ ہمارے دل پر آج بھی دستک دیتا ہے "یا اللہ پاکستان کو سلامت رکھنا، ہم بے گھروں اور مصیبت کے ماروں کو پاکستان نے پناہ دی۔ امریکہ کی ویلفیئر کی تنظیموں کے توسط سے مختلف ممالک سے مہاجرین کو امریکہ لایا جاتا تھا۔ ایک عمارت کے فلیٹس میں بہت سے افغان مہاجرین رہائش پذیر تھے۔ ایک فلیٹ کے دروازے پر دستک دی تو ایک افغان دوشیزہ نے دروازہ کھولا۔ اندر ایک ضعیف شخص قالین پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔ دوشیزہ نے بتایا یہ میرے سُسر ہیں شوہر افغان جنگ میں مارا گیا ہے۔ لڑکی اُردو بول سکتی تھی جبکہ خاندان کے باقی افراد فارسی بول رہے تھے۔ لڑکی بولی شوہر کی موت کے بعد ہما را خاندان پاکستان ہجرت کر گیا اور تقدیر ہمیں امریکہ لے آئی لیکن ہم پاکستان کی مہمان نوازی کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔
مہاجرین کی خیریت معلوم کرنے دوسرے فلیٹ میں گئے تو وہاں بھی ایک بیوہ سے ملاقات ہوئی۔ ایک بچہ بھی اس کے ہمراہ تھا۔ اس یتیم کا باپ باپ بھی شمالی اتحادیوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ ان سے ملاقات کے بعد ہم بلڈنگ کی دوسری منزل پر گئے وہاں سترہ سالہ حبیبہ نے خوش آمدید کہا اورگرمجوشی سے گلے ملی جیسے مدت بعد کوئی بچھڑا رشتہ مل گیا ہو۔ اپنے بوڑھے والدین سے ملایا۔ ماں نے فرط جذبات میں ہماری پیشانی کا بوسہ لیا جیسے سر زمین پاکستان کی مٹی کو بوسہ دے رہی ہو۔ ہمارے لئے یہ تمام محبت اور دعائیں اس پاکستان کے لئے تھیں جس نے لاکھوں مہاجرین کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی تھی۔ یہ چند خاندان امریکہ بلا لئے گئے جبکہ ان سب کے خاندان بھی پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ ایک اور دوشیزہ ملی اس کا شوہر طالبان کے ساتھ جہاد میں شریک تھا اور پھر گھر نہیں لوٹا۔ اس کا اکلوتا بھائی بھی افغان جنگ میں مارا گیا تھا جبکہ اس کے ساتھ موجود بوڑھا باپ افغان جنگ میں بم دھماکوں کی گھن گرج سے قوت سماعت سے محروم ہو چکا تھا۔ بولی ہم غیور لوگ ہیں مگر روس اور امریکہ کی جنگ نے ہمیں دربدر کر دیا۔ خاندانوں کو جُدا کر دیا۔ امریکہ اپنی انسانیت پر مہر ثبت کرانے کے لئے ہمیں یہاں لے آیا ہے۔ مہاجرین کی اس عمارت میں ایک پاکستانی مہمان کی آمد کی سب کو خبر ہو گئی۔
مزید آگے بڑھتے کہ باقی کے فلیٹس سے افغان بہن بھائیوں ہم سے ملنے خود پہنچ گئے۔ ایک نحیف باریش بزرگ لڑکھڑاتے قدموں سے دروازے تک آئے اور ہمارا ہاتھ تھام کے قالین پر اپنے قریب بٹھا لیا۔ آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور دونوں ہاتھ آسمان کی جانب اُٹھا کر بولے " اے اللہ تو گواہ ہے جب افغانستان کی گلیوں میں انسانی خون اور ہڈیوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، لاشوں کی تعفن سے فضا زہرآلود ہو گئی تھی۔ اُمت کی بیٹیوں کی آبروریزی کا بازار گرم تھا۔ ہمارے جگر گوشے ہماری آنکھوں کے سامنے کٹ رہے تھے۔ ہم غیور لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔ ہماری اپنی ہی زمین ہم پر تنگ ہو گئی تھی۔ قیامت کی ان گھڑیوں میں پاکستان تھا جس نے ہم مجبور بے سہارہ مہاجروں کے لئے اپنے دل اور گھر کے دروازے کھول دئیے تھے۔ اے اللہ تو پاکستان اور وہاں بسنے والوں کو اسلام دشمنوں سے محفوظ رکھنا اورآمین کہتے ہوئے اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ پھیرتے ہوئے ہماری جانب متوجہ ہوئے اور کہا تم پاکستان کی بیٹی ہو ہم مہاجروں کی خبر گیری کو آئی ہو تو لگا ہے پاکستان چل کر آگیا ہے۔ بیٹی جب پاکستان جانا ہو اس مٹی کو میرا یہ پیغام ضرور پہنچا دینا کہ اے پاک وطن ہم تیرا یہ احسان قبر کی مٹی تک فراموش نہیں کر سکیں گے۔ ہم ان مہاجرین خاندانوں کی خدمت کے لئے اکثر ان کے پاس جایا کرتے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان امریکہ سے نفرت نہیں کرتے تھے۔ پاکستان امریکہ اتحادی سمجھے جاتے تھے۔
امریکہ کی نظر میں مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ مجاہدین ہوا کرتے تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ امریکہ میں غیر امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ ہم مہاجرین کے لئے ضروریات زندگی کا سامان اکٹھا کر کے ان تک پہنچایا کرتے، نوجوانوں اور بچوں کو امریکہ اور تعلیم سے متعلق معلومات دیا کرتے اور بڑوں کی نفسیاتی سپورٹ کیا کرتے۔ امریکی ویلفیئر تنظیموں نے مہاجرین کو عارضی رہائش دے رکھی تھی۔ چند ماہ میں قانونی تقاضے پورے ہونے پر سب کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا تھا۔ ان حالات میں مہاجرین کو سب سے زیادہ نفسیاتی اور اخلاقی مدد کی ضرورت تھی جس نے ان مہاجرین کو ہمارے قریب کر دیا۔ آج جب کبھی پرانی ملاقاتیں یاد آتی ہیں تو سوچتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ کو افغانوں سے بہت محبت تھی کیونکہ انہیں یقین تھا کہ افغان کبھی کسی کی غلامی قبول نہیں کرتے۔ اسی لئے اقبال نے کہا افغان باقی، کہسار باقی الحکم للہ، الملک للہ۔۔۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے صرف یہ سوچ کر افغانستان پر یلغار کی کہ مٹھی بھر طالبان کو ملیامیٹ کرنے کے لیے بی باون طیارے سے گرائے جانے والے چند ڈیزی کٹر بم ہی کافی ہوں گے، جبکہ سادہ لوح افغان عوام کو وہ ڈالروں کی چمک، تعمیرِ نو کے کھوکھلے وعدوں اور چند حامد کرزئیوں اور اشرف غنیوں کے ذریعے رام کرلیں گے، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد? افغانستان میں قیام امن کے لئے امریکہ کا طالبان کے ساتھ تقریباً ایک برس تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد امن سمجھوتہ بھی طے پاگیا ہے۔ لیکن، اب صورتحال یہ ہے کہ کرونا کی مہلک وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور خود امریکہ انتہائی متاثرہ ملکوں میں شامل ہو گیا ہے۔ امریکہ نے اگرچہ افغانستان کو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے امداد فراہم کی ہے۔ اس وقت کرونا ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اس کا مرکز بن گیا ہے اور اس کو کرونا کے بھیانک اثرات کا سامنا ہے۔
اس لئے امریکہ کے لئے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ دنیا میں اپنے اقتصادی، فوجی اور سیاسی توجہ برقرار رکھ سکے، بلکہ اب وہ مجبور ہو گیا ہے کہ وہ اپنی تمام سیاسی اور اقتصادی قوت کو اپنے ملک کے اندر مرکوز کرے اور خود کو اس ہولناک وبا سے محفوظ رکھنے پر دھیان دے اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ 2020ء صدارتی انتخاب کا سال ہے اور امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ بیرونی عوامل سے ہٹ کر داخلی صورتحال پر توجہ مرتکز کی جائے اور انتخابی مہم میں کرونا وبا پر دھیان مبذول ہوگا۔