ابلیس کا اصل مسئلہ بھی تکبر و گھمنڈ تھا۔ خود کو عقل کل سمجھنے لگا تھا۔ اللہ سبحان تعالی نے ذلیل کر کے جنت بدر کر دیا۔ پس اس دنیا میں کسی کو اقتدار کا نشہ ہے، کسی کو دولت کا سرور اور کسی کو شہرت و قابلیت کا غرور ہے۔ جو بھی آتا ہے پچھلوں کے کھاتے کھول کر بیٹھ جاتا ہے، کوئی فضا میں مکا لہراتا ہے کوئی انگلی لہراتا ہے کہ پہلوں کو نشان عبرت بنا دیں گے جبکہ کسی کو اگلے لمحہ کی خبر نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ بیرونی سازشیں وطن عزیز کو لاغر کرنے میں مصروف ہیں اور وطن عزیز اندرونی لڑائیوں میں مشغول ہے۔ سن رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کو بھی ایم کیو ایم کی طرح ماضی بنا دیا جائے گا البتہ "مسلم لیگ " کا نام باقی رہے گا۔ مسلم لیگ کی تاریخ اور تقدیر میں تقسیم ہونا لکھا ہے۔
قائداعظم کی مسلم لیگ اورکارکن تو قبروں میں جا سوئے اور نقالوں نے جماعت کا نام چرا لیا۔ متعدد مسلم لیگیں آتی جاتی رہی ہیں لیکن نواز شریف کی جماعت نے پنجاب میں پنجے گاڑھ لئے مگر اب لگتا ہے ن کے پنجے اکھاڑنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ پہلے ہی ن، ش، م میں تقسیم ہو چکی ہے باقی کنفیوز کابھی لندن کارکن حکومتی پارٹی کی چھتری تلے جمع ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے باغی ممبران نے حکومت سے درخواست کی کہ ممکنہ فارورڈ بلاک بنانے تک ان کے نام پردے میں رکھے جائیں۔ کچھ عرصہ پہلے پنجاب کابینہ کے سنیئر ممبران نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کا اعتراف کرنے والے اراکین پنجاب اسمبلی کے علاوہ ملاقات کی تردید کرنے والے تمام ایم پی ایز نے وزیراعظم سے ملاقات کی لیکن یہ ملاقات ایک وقت میں نہیں بلکہ مختلف گروپس کی صورت میں ہوئی تھی۔
کچھ لیگی ممبران اسمبلی نے وزیر اعلی پنجاب تک مختلف چینلز سے رسائی حاصل کی تھی جس میں مسلم لیگ ق کی اعلٰی قیادت اور گورنر پنجاب بھی شامل تھے۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ ن میں دو بیانیے کی وجہ سے بھی اراکین باغی ہو رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مریم نواز اور شہباز شریف کے بیانیے میں پھنس کر رہ گئے ہیں اور خود کو کسی مشکل سے بچانے اور اپنی سیاست بچانے کے لیے مسلم لیگ ن سے علیحدگی کا فیصلہ ہی ہمارے لیے درست ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ سے مریم نواز کو بھی لندن جانے کی حمایت مانگی جو مسترد کر دی گی اور کسی کیس میں ریلیف نہ دینے کا عندیہ بھی دے دیا جس کے بعد نواز شریف کے سیاسی ساکھ بچانے کے لئے فوج مخالف آخری بیانیہ کو کھل کر کھیلنے کا فیصلہ کر لیا۔ ادھر شہباز شریف بھائی سے بغاوت کا بوجھ اُٹھانے کی حیثیت میں نہیں لہٰذا انہیں بھی جیل جانا پڑا اور مفاہمتی سیاست ہمت ہار گئی۔ سب سیاست اور اقتدار کی لڑائی ہے۔
مسلم لیگ ن میں اکثریت فوج مخالف بیانیہ کے خلاف ہے۔ شہباز شریف کے مفاہمتی موقف کے حق میں تھے مگر شہباز شریف نے بھی بھائی کے بیانیہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے جس کے بعد مسلم لیگ ن کے پاس ایک ہی چوائس ہے کہ نواز شریف کے ساتھ یا فوج کے ساتھ؟ نواز شریف کا فوج مخالف بیانیہ نے الطاف حسین کی سیاست کا آخری وقت یاد دلا دیا جب تمام کشتیاں جلا بیٹھا تو لندن سے شکست خوردہ نے فوج کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا۔ انڈین اور مغربی حکومتوں نے الطاف حسین سے پاک فوج کے خلاف بکواس کے بدلے بس اس کی جان بچائی۔ نیم پاگل زندہ لاش۔ پاکستان کی تمام سیاست ایک طرف اور پاک فوج کا تقدس ایک طرف۔ نواز شریف نے الطاف حسین سیزن 2 ڈرامہ شروع کر رکھا ہے اس کھیل کی آخری قسط بھی جلد نشر ہونے والی ہے۔ بے خوف ہیں وہ لوگ جو عارضی عروج اور اقتدار کے نشے میں آنے والے کل کے زوال اور حساب کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اور بھول جاتے ہیں کہ سدا بادشاہی سوہنے رب کی ہے۔
قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو کہتے تھے کہ ہمارے بغیر دنیا نہیں چل سکتی۔ دنیا کی مہذب اور ترقی یافتہ قوموں نے اپنے اندر اس برائی کو پنپنے نہیں دیا، وہاں شخصیت پرستی جیسی برائی موجود نہیں۔ بادشاہ خود کو خدا سمجھنا چھوڑ دے تو درویش ہوجاتا ہے۔ بڑے بڑے شہنشاہوں کے مقبرے عبرت گاہ بنے ہوئے ہیں اور درویشوں کی قبروں پر ہجوم لگا رہتا ہے۔ ملکوں پر حکومت کرنے والوں کی قبر وں پر سناٹے اور دلوں پر حکومت کرنے والوں کی قبروں پر میلے سجے دیکھو گے۔ برما کے شہر رنگون میں بہادر شاہ ظفر کی قبر پر کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔ شان شوکت جاہ و جلال والے مغلیہ دور کی آخری نشانی شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کا مقبرہ نشان عبرت بنا چیخ چیخ کرعروج و زوال کی داستان سنا رہا ہے۔ ذات کریم کے سامنے بندہ بے بس و لاچار ہے۔ ایک کن کے سامنے بندے کی ساری اکڑ، جاہ و جلال، شان و شوکت لمحے میں ڈھیر ہو جاتی ہے۔