اس سال تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں کرونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر کے سبب امریکہ کی تاریخ میں ڈاک کے ذریعے ریکارڈ ووٹ ڈالے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کو عموماً 'ارلی ووٹنگ' یعنی انتخابات کے دن سے قبل ووٹ ڈالنے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ 'ارلی ووٹنگ' میں ووٹر مخصوص جگہوں پر جا کر الیکشن کے دن سے قبل ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ عام طور پر ووٹرز کو ایک مقامی الیکشن دفتر کی جانب سے ارسال کردہ بیلٹ فارم کو پْر کر کے اپنے دستخط کرنا ہوتے ہیں۔ جس کے بعد وہ اس بیلٹ کو لفافے میں محفوظ کر کے اپنے قریب ترین ڈاک کے ڈبے یا باکس میں ڈال کر ارسال کر دیتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑے پیمانے پر ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے پر بارہا اعتراضات اٹھائے ہیں۔
اْن کے بقول کسی عذر کے بغیر تمام ووٹرز کو یہ سہولت دینا الیکشن فراڈ کا باعث بن سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ اس خدشے کا بھی اظہار کرتے رہے ہیں کہ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کا عمل الیکشن نتائج میں تاخیر کا بھی باعث بن سکتا ہے کیوں کہ بیلٹ پیپر گم ہونے کا امکان بھی رہے گا۔ صدر ٹرمپ کابذریعہ ڈاک ووٹنگ پر اعتراض اور الیکشن میں دھاندلی کا اشارہ در اصل ان کی نیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ امریکی الیکشن میں کرونا وائرس کی وجہ سے بہت سے لوگ الیکشن میں لائن میں لگ کر ووٹ دینے کی بجاے ڈاک سے ووٹ دے رہے ہیں۔ مشہور ریسرچ کا ادارہ Pew کے مطابق ڈیموکریٹک 10 میں سے 6 ڈاک سے ووٹ ڈالیں گے اور ٹرمپ کے سپورٹرز یعنی ریپبلیکن 10 میں سے 4 ڈاک سے ووٹ ڈالیں گے۔ مگر مختلف جگہوں سے لوگوں نے ڈاک ابھی سے ھی سڑکوں پر پھینکی ھوئی دیکھی ہے۔ یعنی جو پوسٹ مینہ ہیں اور وہ ٹرمپ کے سپورٹرزہیں وہ جان بوجھ کر ڈاک جب ڈبوں سے نکالتے ہیں، وہ آگے پہنچاتے ہی نہیں اور اس کو پھینک دیتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ صدر ٹرمپ اب تک کے سارے پول میں ہار رہے ہیں مگر ان کو اصل میں ہرانا اتنا آسان نہیں ہے۔
امریکی سرمایہ دارانہ نظام میں پیسے والوں کو بہت سہولتیں ہیں۔ امریکہ میں اس وقت صرف پچاس افراد کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ نچلی پچاس فیصد آبادی یعنی 170 ملین لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مدِ مقابل ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن اور ان کی پارٹی کا مؤقف ہے کہ کرونا وائرس کے خطرات کے پیشِ نظر ڈاک کے ذریعے ووٹنگ صحتِ عامہ کے لیے ضروری ہے۔ بعض ماہرین کا یہ مؤقف ہے کہ 2004 سے 2016 کے انتخابات کے دوران ڈاک کے ذریعے ووٹنگ میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس طریقے کے تحت ڈالے گئے ووٹس کی تعداد دو کروڑ 50 لاکھ سے بڑھ کر پانچ کروڑ 77 لاکھ ہو گئی ہے۔ بہر حال فراڈ کو مکمل طور پر خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ الیکشن نتائج مرتب کرنے میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ انتخابات سے چار ہفتے قبل تقریباً 40 لاکھ امریکی ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ ڈال چکے ہیں۔
مبصرین کے مطابق 2020 کے انتخابات میں بذریعہ ڈاک ووٹنگ کی اہمیت پہلے سالوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ٹرمپ امریکہ کا الطاف حسین ہے اور یہ پہلے دن سے عصبیت کا کارڈ کھیل رہا ہے۔ عصبیت، لسانیت اور مزہب کے نام پر سیاست کرنے والے کو ہرانا بہت مشکل نظر آتاہے۔ اسی لسانیت اور عصبیت کے نام پر الطاف حسین نے مہاجرین کو30 سال بیوقوف بنایا۔ اور ٹرمپ مزید چار سال بیوقوف بنانا چاہتا ہے۔ وہ اپنے چاہنے والے کے اعصاب پر سوار ہوتا ہے۔ امریکہ میں ووٹر کی تعداد کا پانچ فیصد ایشیا ووٹرز پر مشتمل ہے۔ مگر یہ تعداد ہار جیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں پاکستانی اور مسلمانوں کی اکثریت ریپبلکن یعنی ٹرمپ کی جماعت کو ووٹ دیا کرتے تھے مگر اس مرتبہ ان کی اکثریت ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیتی نظر آتی ہے اور اس کی وجہ ٹرمپ کی اسلام مخالف متعصبانہ سوچ ہے۔