عشق نبیﷺ میں ایک مقام ایسا آتا ہے کہ ایک مومن کی ذات بھی اس کی نہیں رہتی اور کہاں یہ زمانہ آگیا ہے کہ عشق نبیﷺ کو بیوپار بنا دیا گیا ہے۔ جہاں سودا گری ہے وہاں عشق نہیں ٹھہرسکتا۔ عشق کا کوئی مول نہیں اور نہ یہ بیچنے اور خریدنے کی چیز ہے۔ یہ وہ دولت ہے جو دنیا کی حرص و لالچ سے پاک قلوب میں سما سکتی ہے۔
پندرہ صدیاں بیت جانے کے باوجود آج بھی دربار نبویﷺ میں بڑے بڑے عاشق بیٹھے ہیں۔ اپنے ملکوں میں رئیس کہلاتے ہیں لیکن جب اس دربار عالی میں پہنچتے ہیں تو فقیر ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھار ان گمنام فقیروں سے دربار نبوی ﷺ میں ملاقات کا اتفاق ہو جاتا ہے۔ عقیدت و عشق گلاب کے اس پھول کی مانند ہوتا ہے جس کی خوشبو اسے محبوب کے کوچے تک لے جائے تو عاشق آنکھیں بند کئے خوشبو کے پیچھے پیچھے چل دیتا ہے لیکن عشق حقیقی عاشق کو اندھے کنویں میں گرنے سے بچا لیتا ہے جبکہ عشق مجازی اکثر لے ڈوبتا ہے۔
عشق مجازی میں نفس کا بڑا دخل ہوتا ہے جبکہ عشق حقیقی صرف اللہ ا ور اس کے حبیبﷺکی ذات تک محدود ہوتا ہے۔ سفر اگرحقیقت کی جانب ہو تو منزل مل کر رہتی ہے گوکہ اس سفر کے دوران بڑے بڑے شعبدہ باز اور بیوپار بھی ملتے ہیں لیکن منزل کے حصول کا جنون ہو تو تمام بازار پیچھے رہ جاتے ہیں اور منزل سامنے ہوتی ہے۔ چند برس ہوئے ایک عجیب تجربہ ہوا۔
مسجد نبویﷺمیں ایک پاکستانی ملا، کئی سالوں سے مسجد نبوی ﷺکے مہمانوں کی خدمت کر رہاہے، کہتا ہے کہ وہ آج بعد از عشاء ایک شخص سے ملانے لے جائے گا جو دربار نبوی ﷺکے خاص خدمت گزاروں میں سے ہیں۔ ہم نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش کی اور وہ شخص ہمیں اپنی گاڑی پر مسجدی نبوی سے پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر ایک دو منزلہ مکان میں لے گیا۔ کچھ دیر میں وہ عربی صاحب اپنے خادموں کے سہارے سے گاڑی سے نیچے اترے۔ چلنے سے معذور ہو چکے تھے، وزن بھی اتنا تھا کہ دو خادم مل کر بھی انہیں اٹھانے سے پریشان تھے۔
عربی صاحب سے سلام دعا کی اور مہمانوں کو اوپر ان کے کمرے میں آنے کی ہدایت کی۔ وہاں ایک ترکی صاحب پہلے سے موجود تھے جو ترکی سے ان عربی صاحب کے لئے تحائف المعروف (ہدیہ) لائے ہوئے تھے۔ پاکستانی خادم نے تعارف کرایا کہ امریکہ سے ڈاکٹر صاحب ملنے آئے ہیں تو ان صاحب نے اپنی الماری سے دوائیوں کا ڈھیر نکالا اور ڈاکٹر صاحب کے سامنے میز پر ڈھیر کرتے ہوئے اپنی بیماریوں کی فہرست گنواناشروع کر دی۔
ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ انہیں کوئی ایسا علاج بتائیں کہ ان کی بھوک کم ہو جائے اور ان کا وزن کم ہو۔ پاکستانی مترجم جو ہمیں ان صاحب کے پاس لے گیا تھا سب بتا رہا تھا۔ اور ہم تمام تر عقیدت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ اگر کوئی بھی انسان نبی کریمﷺ کی سنت کے مطابق زندگی گزارے تو اس کا یہ حال نہیں ہو سکتا۔ عربی صاحب نے دل پر پیس میکر لگوا رکھا ہے۔ عارضہ قلب میں مبتلا معدہ کٹوانے کا آپریشن بھی نہیں کروا سکتے۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک گھنٹہ انہیں سمجھانے میں صرف ہوگیاکہ سنت نبویﷺ کے طرز زندگی کے بغیر بھوک کم نہیں کی جا سکتی۔ ان عربی صاحب کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ روضہ رسولﷺکے حجرہ مبارک کی کنجیاں ان کے خاندان کے پاس تھیں مگر اب حکومت سعودیہ کی تحویل میں ہیں۔ ہم اٹھنے لگے تو عربی صاحب نے کہا تبرکات نہیں لو گے،۔ عربی صاحب نے خادموں سے ایک بریف کیس منگوایا۔ اس میں سے خوشبوؤں میں لپٹا ہوا پلاسٹک کا ایک لفافہ نکالا، بقول عربی صاحب کے خاک مبارک تھی جو دوران صفائی نبی پاکﷺ کی قبر مبارک سے سمیٹی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ قبر مبارک کو مختلف اقسام کے عطر سے صاف کیا جاتا ہے جس سے خاک گیلی مٹی کی شکل میں اکٹھی کرکے محفوظ کر لی جاتی ہے اور بڑے بڑے لوگوں کو بطور ہدیہ پیش کی جاتی ہے۔
عربی صاحب نے وہ لفافہ ڈاکٹر صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا "آپ کے لئے صرف پانچ سو ریال میں دے رہا ہوں، ورنہ اسکی قیمت بہت زیادہ ہے "۔ اندر چھن سے کوئی چیز ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔ یہاں بھی بیوپاری؟ پھر قبر مبارک کے غلاف مبارک کا ایک ٹکڑا دکھایا کہ اس کا ہدیہ ایک ہزار ریا ل صرف آپ کے لئے۔ عربی صاحب نے ہمیں وہ ہدیہ بیچنے کی بہت کوشش کی لیکن ہم کرسی سے اٹھ گئے اور معذرت کرتے ہوئے کمرے سے نکل گئے۔ ڈاکٹر صاحب خاک مبارک کا ہدیہ ادا کرکے بوجھل قدموں سے اٹھے۔ باہر گاڑی میں آکر بیٹھے تو پاکستانی صاحب سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ یہ عشق نبیﷺ نہیں، بیوپار ہے۔
آپ اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کو ایسے لوگوں کے پاس لے جاتے ہیں جو تبرکات کا سودا کرتے ہیں؟ خاک مبارک پر ہماری جان بھی قربان مگر تبرکات کی آڑ میں جعل سازی بھی کرتے پکڑے جاتے ہیں، زم زم اور تبرکات کے نام پر دو نمبری چیزوں کو اصلی بتا کر مال بٹورا جاتا ہے۔ شریعت و عقیدت کو بھی شعور کی ضرورت ہے۔ پاکستانی صاحب کا اس میں کیا کمیشن بنتا تھا جو دوردراز ملکوں سے آئے عقیدت مندوں کو گھیر کر ان بیوپاریوں کے پاس لاتے ہیں؟ یہ ایک جھلک ہے جو تمام حقیقت کو منکشف کرنے کے لئے کافی ہے مگر صرف عقل مندوں کے لئے۔
جب ان صاحب نے دیکھا کہ ہم خوش ہونے کی بجائے الٹا برہم ہو رہے ہیں تو اس نے بھی صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتادیا کہ اس طرح کے کئی صاحب سعودی حکومت اور حج منسٹری کے اعلیٰ عہدیداروں سے مسجد نبویﷺ کے قالین اور دیگر تبرکات ہزاروں ریالوں میں خریدتے ہیں اور لاکھوں ریالوں میں فروخت کرتے ہیں۔ کراچی سے ایک میمن صاحب مسجد نبویﷺ کے قالین کا ایک حصہ ملین ریالوں میں خرید کر لے گئے اور ہر سال میلاد النبیﷺ کے موقع پر اس قالین کی زیارت کراتے ہیں۔ عقل مندوں کے لئے اشارہ کافی ہے، یہ عشق ہے، بیوپار نہیں۔۔!