بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ کیوں؟ بس اتنی سی غیرت تھی؟ اتنا سا پیار تھا لا پتہ لواحقین سے؟ اتنی سی ہدایات تھیں بیرونی ہاتھوں کی؟ اتنی جلدی سردی لگ گئی؟ اتنا سا ہی صبر برداشت اور جہاد تھا؟ یوں کیوں نہیں کہتی جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ سچ زبان پر آ ہی گیا کہ ایران میں مارے جانیوالے دہشتگرد تمہارے باپ بھائی تھے اور پھر تمہارے دھرنے کی ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹ گئی؟
یہ جانتے ہوئے کہ مسنگ پرسنز افغانستان اور ایران میں دہشت گردی کیمپوں میں موجود ہیں، ماہ رنگ بلوچ ان دہشت گردوں کے لواحقین کو لے کر ریاست کے خلاف احتجاج کے لیے بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ آلہ کار خاتون عورت کارڈ استعمال کر رہی ہے۔ یہ جبری گمشدہ تھے تو ایران کے بی ایل اے /بی ایل ایف کیمپوں میں کیا کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ لا پتہ افراد کے احتجاجی کیمپ کی خاتون لیڈر ماہ رنگ بلوچ نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایران پر جوابی حملے میں جو بلوچ مرے ہیں ان کے لواحقین اسلام آباد اس دھرنے میں موجود ہیں۔۔
سچ منہ پر آہی گیا کہ ہمارے مرد مِسنگ نہیں بلکہ ایران افغانستان انڈیا کے کیمپوں میں کرائے کے دہشتگرد چھپے بیٹھے ہیں۔ دشمنان پاکستان ان کی عورتوں بچوں بوڑھوں کو بطور ریاست مخالف پروپیگنڈا اکثر مظاہروں، لانگ مارچ اور دھرنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ بیرونی طاقتوں کے کچھ مائوتھ پیس سوشل میڈیا پر ہمدردیاں بٹورنے کے لئے بٹھا دیے جاتے ہیں۔ مگر ریاست اس بلیک میلنگ میں آنے والی نہیں، اس لئے کسی جذباتی مہم کو ملک کی سلامتی پر حاوی ہونے نہیں دیا۔ ریاست عورت کارڈ سے قطعی بلیک میل نہ ہوئی اور دھرنے کا مقصد بھی بے نقاب ہو چکا تو خاتون نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسی ٹولے کے لیڈر نے سانحہ نو مئی کی آڑ میں بھی عورت کارڈ استعمال کرنے کا پلان بنا رکھا تھا مگر ریاستی اداروں نے بندوق اور لاٹھی نہ اٹھا کر مظلومیت کا پلان فلاپ کر دیا۔
ورنہ پلان یہی تھا کہ ریاستی تنصیبات پر حملہ آور ہونے والوں پر تشدد ہوگا اور پوری دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں ہمدردی کے نام پر اٹھ کھڑی ہوں گی مگر ریاست شاہراہوں، کور کمانڈر ہاؤس اور ہر جگہ شر پسندوں کے راستے سے ہٹ گئی تا کہ ڈرامہ کھل کر ایکسپوز ہو سکے اور وہ ہوگیا۔ جب کوئی لاش نہ گری، کسی عورت کا سر نہ پھٹا، نہ کوئی گولی چلی نہ پٹاخہ چلا تو ڈرامہ مکمل فیل ہونے پر پروپیگنڈا شروع ہوگیا کہ نو مئی ریاستی اداروں نے خود کرایا ہے؟ یہ ماہ رنگ بلوچ بھی انہی کی کارندہ ہے، مظلومیت اور ظلم کی علامت بنی عورت کارڈ سے کھیلتی رہی۔ جب ریاست نے اس کے دھرنے کی سازش کو بھی جوتے کی نوک پر رکھا تو اٹھ کر چل دی۔ مِسنگ پرسنز ہوں یا آزادی کے نام پر غداری کے ڈرامے ہوں، اب ریاست نے بلیک میل ہونا چھوڑ دیا ہے۔
مسنگ پرسنز کے نام پر جھوٹا پروپیگنڈا جو ملک دشمن عناصر کی طرف پھیلایا جا رہا ہے۔
عالمی دہشتگردوں کی لسٹ میں بی ایل اے پانچویں نمبر پر اور بی ایل ایف سترہویں نمبر پر ہے۔ ایسے میں بلوچ یکجہتی کونسل ان دونوں کے سیاسی چہرے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے، جو آج کل ایک ایسا احتجاج کر رہی ہے جس کا مقصد نہ صرف ملک کو کمزور کرنا ہے بلکہ بلوچ قوم کو بھی بدنام کرنا ہے۔ یاد رہے کہ
بلوچ یکجہتی کونسل کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جو عبدالغفّار لانگو کی بیٹی ہے، یہ وہی ہیجو بی ایل اے کاایک کمانڈر تھااور ریاستی اداروں پر لاتعداد حملوں میں ملوث تھا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نہ صرف ریاستی وظیفہ پر تعلیم حاصل کرتی رہی بلکہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد سے اب تک وہ سرکاری تنخواہ کے ساتھ ساتھ متعدد سہولتیں بھی لے رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال بجاطور پر اٹھتا ہے کہ ایک طرف سرکاری تنخواہ دوسری طرف دہشتگردوں کی حمایت کیوں۔ اس تمام صورتحال کے پس منظر میں غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ دستاویزی شواہد سامنے آنے کے بعد غالبا یہ کہا جا سکتا ہے کہ لاپتہ اور جبری گم شدگیوں کے مبینہ واقعات حقیقت پر مبنی نہیں اور انہیں پاکستان مخالف عناصر نے اپنے منفی عزائم کی تکمیل کیلئے گھڑا ہے۔