پاک فوج کی جانب سے چمالنگ ایجوکیشن پروگرام کے تحت طلباء و طالبات کو مستقبل کے سنہری مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ ایک تصویر دیکھی فوجی فرزند ماں کی قدم بوسی کر رہا ہے۔ بٹالین سینئر انڈر آفسر (BSUO) عثمان انور بلوچ کا تعلق بلوچستان کے پسماندہ ضِلع نوشکی سے ہے۔ یہ نوجوان آفسر 9 اکتوبر 2021 کو پاکستان مِلٹری اکیڈمی کاکْول سے پاس آؤٹ ہوا اور اعزازی شمشِیر حاصِل کی جو بحیثیت مجموعی کورس میں اوّل آنے والے کیڈٹ کو دی جاتی ہے۔ پاسِنگ آؤٹ پریڈ کے بعد یہ مؤدب نوجوان اپنی ماں کے قدم چوم رہا ہے۔ تصویر بولتی ہے اور قلم کو لب کشائی پر مجبور کر دیتی ہے۔
ترقی بلوچستان پاک فوج کا قابل ذکر ہدف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں پاک فوج بلوچ عوام کی پسماندگی دور کرنے کے حوالے سے متعدد کام کر رہی ہے۔ یہاں پر سکول، ٹیکنیکل تربیت کے ادارے قائم کئے گئے ہیں۔ لوگوں کو روزگار سے وابستہ کیا گیا۔ پاک فوج کی کوشش ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو تعلیم یافتہ بنا کر روزگار سے وابستہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ پاک فوج بلوچستان میں بہت سے بڑے پراجیکٹس جیسا کہ کوسٹل ہائی وے، گوادر کی بندرگاہ، بلوچ نوجوانوں کی فوج میں بھرتی، تعلیمی ادارے اور صحت کی سہولیات مہیا کرنے جیسے اقدامات کر رہی ہے۔ پاک فوج بلوچستان کے عوام کے ساتھ ہے اور چاہتی ہے کہ یہاں کے لوگ خوشحال ہوں، ترقی کریں اور ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ ترقی میں شانہ بشانہ شامل ہوں۔ صوبہ بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے مگر تعلیمی حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ پسماندہ۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں چند اچھے انسٹیٹیوٹ ضرور موجود ہیں لیکن بلوچستان کے دوسرے شہروں اور قصبوں میں اچھے تعلیمی اداروں کی شدید کمی ہے۔ وہا ں کے طالب علم مجبوراً دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں مگر ان کی اکثریت اپنی غربت کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ دیتی ہے۔ بلوچستان میں پاک فوج کی قربانیوں اور کاوشوں سے امن کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوگیا تو پاک فوج نے تعلیم کو فروغ دینے کے لئے تعلیمی پروگرام شروع کرنے کا بیڑا اٹھایا تاکہ بلوچستان کے بچے بھی پڑھ لکھ کر پاکستان کے دوسرے صوبوں کے ہم پلہ آجائیں اور وطن کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو کہ پورے ملک کے تقریباََ 44 فی صد حصّے پر مشتمل ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس میں سے صرف 5 فی صد حصّے پر آبادی پائی جاتی ہے۔ باقی کا حصّہ خشک اور چٹیل پہاڑوں پر مشتمل ہے جن کے سینوں میں معدنیات کا بیش بہا قیمتی خزانہ دفن ہے۔ ایک جانب یہی خزانہ اس صوبے کا اصل زر تصور کیا جاتا ہے جب کہ دوسری جانب گوادر کا ساحلی علاقہ ہے جو 750کلو میٹر طویل پٹی بناتا ہے اور تاحال تعمیراتی مراحل سے گزر رہا ہے۔ اگرچہ گوادر پورٹ کی تعمیر میں کسی حد تک تیزی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن بہر صورت ابھی بہت کچھ ہونے کو باقی ہے۔
قدرتی وسائل سے مالا مال یہ صوبہ معیشت کی شہ رگ بن سکتا ہے۔ لیکن غیر ملکی عناصر کی چیرہ دستیوں کے سبب کئی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ان غیر ملکی عناصر کی دہشت گرد سرگرمیوں نے جہاں صوبے کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے ہوئے ہیں وہاں صوبے کی اصل طاقت وہاں کی نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار بنانے کا بھی پورا پورا بندوبست کر رکھا ہے۔ ان حالات میں افواج پاکستان جہاں اندرونی وبیرونی سلامتی کو ہر قیمت پر یقینی بنانے کے عزم کے ساتھ گامز ن ہیں اور دشوار راستوں اور کٹھن حالات میں نہ صرف اپنے معمول کے فرائض انجام دے رہے ہیں بلکہ وہاں ترقیاتی پروگراموں میں بھی پیش پیش ہیں۔ سڑکوں کا لامحدود جال بچھایا جا چکا ہے، دوردراز علاقوں میں طبی سہولیات مہیا کی جارہی ہیں، سکولوں اور کالجوں کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے بہت سے تعلیمی اداروں کا جال بچھاکر وہاں کے طلبہ و طالبات کو ہر سہولت بہم پہنچائی جارہی ہے۔
فنی علوم پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔ اب تو بہت سے نوجوان اپنی تعلیم پوری کرکے صوبے اور ملک کی ترقی میں براہ راست اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ سب سے اہم پیش رفت صوبے کے نوجوانوں کی پاک فوج میں شمولیت ہے۔ پاک فوج نے صوبے کی بہتری کے لیے اقدامات میں پہل کرتے ہوئے چمالانگ مائینز پر باقاعدہ طور پر کام کا آغاز کروایا۔ اس سلسلے کی سب سے اہم کڑی چمالانگ بینیفیشرز تعلیمی پروگرام، کا اجراء ہے جس کے تحت تعلیمی ترجیحات کے ایک نئے باب کا اضافہ دیکھنے کو ملاہے۔
اس حقیقت سے کسی صورت بھی انحراف ممکن نہیں کہ صوبے کی نوجوان نسل آنے والے دور کی امین ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں دیگر صوبوں کی نوجوان نسل کے ہم پلہ لانے اورقومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے تعلیمی ترجیحات اور سہولیات کو بہتر کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ فوج کی جانب سے جا بجا تعلیمی اداروں کے قیام سے اس پیش رفت میں بہتری ہوئی جن کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیمی اور معیاری سہولیات تک رسائی بھی ممکن بنائی گئی۔