Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Billi Thelay Se Bahar Aa Gai

Billi Thelay Se Bahar Aa Gai

میٹنگز میں کچھ جلسوں میں کچھ، یہ انداز بیان دماغ پر گہری چوٹ لگنے کی علامت ہے۔ دوسری باری لینے کے لیے دھمکیاں دیں، امریکیوں سے سفارش کرائی، فالوئنگ اورمقبولیت سے ڈرایا، بات نہ بنی توترلے منت پر اتر آیا پھر بھی دال نہ گلی تو اب بلی کھل کر تھیلے سے باہر آگئی۔ مسٹر ایکس اور مسٹروائے کانام لینے کی ہمت نہیں مسٹر خطرناک میں۔ سوشل میڈیا نے دنیا بھر میں پاکستانیوں کو ڈیپریشن اور اضطراب کا شکار کر دیا ہے۔ میڈیا نہ دیکھیں تو چین نہیں اور دیکھ لیں تو بے سکونی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ان حالات سے صرف حساس لوگ ہی متاثر ہوتے ہیں ورنہ پاکستان میں انتقام کی سیاست نے لوگوں کو بے رحم بنا دیا ہے۔ دل دکھانا تو بے معنی ہے، اب تو دل چیرنے سے کم کارروائی نہیں ہو رہی۔ عمران خان نے بہت سال پہلے کہا تھا کہ الیکشن میں کامیابی کے لیے پنجاب سے کامیاب ہونا شرط ہے اور پنجاب سے اس وقت تک کامیابی ممکن نہیں جب تک میاں نواز شریف کا ووٹ نہ توڑا جائے۔ یہ بات کسی احمق کو بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ نواز شریف کا ووٹ کا بینک توڑنے کے لیے اس کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانا لازمی تھا۔

عمران خان سے جب کہا گیا کہ آپ کی توپوں کا رخ آصف علی زرداری کی بجائے نواز شریف کی طرف ہی کیوں رہتا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ نواز شریف زرداری سے بھی زیادہ کرپٹ ہیں۔ خان سے جب کہا گیا کہ یہ نفرت نواز شریف کے حق میں بھی جا سکتی ہے تو انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ جو عوام میری ایک کال پر چندہ دیتے ہیں وہ میری اس بات پر بھی یقین کریں گے۔ تحریک انصاف کے اکثر لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ آپ نے شروع میں عمران خان کو سپورٹ کیا پھر آپ ان کے خلاف لکھنے لگیں؟ تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ میں عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ ان کی ہمدردی میں لکھتی ہوں۔ میں اس کی خیر خواہ ہوں۔ یہ شخص ہائی جیک ہو چکا ہے اور اس کے یار ہی اس کے قاتل ہوں گے۔

میں کسی سیاستدان کی فین نہیں رہی البتہ شوکت خانم میموریل ہسپتال کی وجہ سے ہم نے اکٹھا وقت گزارا اور اس شخص کے جذبے کو خراج تحسین پیش کیا کرتی تھی۔ امریکہ میں بھی کینسر ہسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ میں حصہ لیتی رہی ہوں اور آج بھی اس رفاہی کام میں ہمارے جذبات سرگرم ہیں مگر ضروری نہیں کہ عمران خان اور ایدھی اچھے سیاستدان بھی ہو سکتے تھے۔ خان کی ملک کے لیے رفاہی خدمات کو سیاست سے الگ رکھا جائے کہ عمران خان واحد خدمت گزار نہیں، بشمول ہمارے اندرون و بیرون ملک لاکھوں پاکستانی اپنی حیثیت کے مطابق خدمت خلق اور رفاہی خدمات میں مصروف ہیں۔

ہمیں پاکستان میں تیسری سیاسی پارٹی کے ابھرنے کی خوشی ہوئی کہ دونوں بڑی پارٹیوں کا غرور ٹوٹ سکے گا مگر خان تو ان سب سے زیادہ مغرور ثابت ہوا۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ 22کروڑ عوام کے وہ واحد لیڈر ہیں اور باقی سب چور ہیں حتیٰ کہ موصوف نے کسی ادارے کو نہیں بخشا۔ عمران خان کی سیاست کو بھی نظر انداز کر دیا جائے مگر ایک ایسے انسان کو کیوں کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے جو ہر شخص کو گندا کرے، الزامات کی بوچھاڑ کر ے، نازیبا لب و لہجہ استعمال کرے مگر اس کا اپناکردار شرمناک ہو، اس میں اتنی اخلاقی جرات نہ ہو کہ اپنی بیٹی کا الیکشن کمیشن میں ہی اعتراف کر سکیں۔

اس دنیا میں کوئی انسان پاک نہیں مگر دوسروں کو گندا کرنے سے پہلے اپنا ماضی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ غیرت مند باپ اپنی غلطیوں اور گناہوں کو ذاتی معاملات، کہہ کر میڈیا کو خاموش کرا دیتا ہے اور باقی جس شخص کی چاہے سرعام پگڑیاں اچھال دے۔ منافقانہ اور دوغلی شخصیت ایک نہ ایک دن بے نقاب ہو کر رہتی ہے۔ 2013ءکے عام انتخابات سے پہلے متعدد دیہاتوں کی اکثریت شیر، پر ٹھپا لگانے کا عندیہ دے رہی تھی۔ جب عمران خان کی حمایت پر بات ہوئی تو دیہی علاقوں کی اکثریت نے اس رائے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ عمران خان جذباتی، غیر مستقل مزاج، متکبر اور ناتجربہ کار ہیں، ان کی باتیں اچھی ہیں مگر تقریروں کی بنیاد پر ووٹ نہیں دےا جا سکتا۔۔

ہم میڈیا دیکھتے تو پی ٹی آئی کی تقریروں سے لگتا کہ عمران خان ہی مستقبل کے وزیراعظم ہوں گے جبکہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں صورتحال مختلف تھی۔ میڈیا پروپیگنڈا اور زمینی حقائق میں تضاد نے شہری آبادی کو کنفیوز کر دیا۔ ہمارے لاہور ڈیفنس کے علاقے سے عمران خان کو کافی ووٹ ملے مگر دیگر پنجاب کا تجزیہ یکسر مختلف تھا۔ الیکشن سے پہلے وائس آف امریکہ نے ہم سے یہی سوال پوچھا اور ہم نے اپنا تجزیہ گوش گزار کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اچھی تعداد میں ووٹ لے جائیں گے مگر وزارت اعظمیٰ نواز شریف کو ملنے کا امکان ہے۔ اس ماحول میں جبکہ عمران خان ہسپتال کے بستر پر پڑے تھے یہ تجزیہ مذاق معلوم ہو رہا تھا۔ الیکشن میں دھاندلی ہوئی مگر اسے ایک کرپٹ ریاست کی پرانی روایت کے طور پر لیا گیا۔ عمران خان نے اسے بدترین دھاندلی، اس لیے قرار دیا کہ انہیں مشیران نے وزارت اعظمیٰ کا یقین دلا دیا تھا۔

طاہرالقادری سے بڑا وی آئی پی کلچر، کا مریض ہم نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اس کے مرید غربت کے ہاتھوں سوکھی مٹی چاٹنے پر مجبور ہیں اور یہ شخص اور اس کا خاندان انگریزوں کی غلامی کی اجرت پر وی آئی پی لائف سٹائل انجوائے کر رہا ہے۔ خان اور قادری نے ڈی چوک میں ڈرامہ رچایا۔ ایک منتخب وزیراعظم نواز شریف کو نکالنے پر جشن منایا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے کارناموں، پر حیرانی نہیں ہوتی دکھ عمران خان کی اصلیت دیکھ کر ہوا۔ آکسفرڈ سے پڑھ کر بازاری زبان استعمال کر رہے ہیں اور ان کی بے لگام یوتھ اس قدر شرمناک زبان اور حرکات کر رہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پچاس بار بھی جنم لے تو تحریک انصاف کی اخلاقیات، تک نہیں پہنچ سکتی۔

کبھی کسی جماعت کے کارکن کی جانب سے ایسا ما حول دیکھنے کو نہیں ملا جو نام نہاد یوتھ کے اوباشوں نے اختیار کر رکھا ہے۔ خواتین کی عزت بھی بھول چکے ہیں۔ ہمیں عمران خان کی سیاست سے نہیں، اس کی زندگی سے غرض ہے۔ اس کے آستین کے سانپ گھر والے ہی اس کے قاتل ہوں گے اور جرم اپوزیشن پر ڈال دیا جائے گا۔ عمران خان کو بھاری سکیورٹی اس کی زندگی بچانے کے لیے دی گئی ہے کہ کوئی اس مار کر ہیرو نہیں بنانا چاہتا۔ پہلے پھانسی ہوئی، جلا وطنی ہوئی مگر اب یہ کلچر بدل چکا ہے اور عمران خان کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے تا کہ بول بول کے ہف کے ڈھے جائے۔