Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Friendly Opposition Ka Tana?

Friendly Opposition Ka Tana?

مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے پیپلز پارٹی کو فرینڈلی اپوزیشن قرار دیدیا ہے۔ اور نواز شریف جو آصف زرداری کی حکومت کے ساتھ پانچ سال تعاون اور بھائی چارہ نبھاتے رہے وہ کیا تھا؟ فرینڈلی اپوزیشن کا پانچ سال جو زبردست مظاہرہ نواز شریف نے روا رکھا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ دونوں میں باریاں لینا طے تھا۔ میں تمہاری ٹرم پوری کرائوں گا تم میری ٹرم پوری کرانا۔ پچاس برس سے دو پارٹیاں ہی باریاں لیتی رہیں اور اب ان کی نسلیں جانشین بنی بیٹھی ہیں۔ تیسری پارٹی کی پہلی باری ہے اور دونوں پارٹیاں تیسری پارٹی کو گرانے کے لیے فرینڈلی ہو گئیں لیکن اندر سے ایک دوسرے کی شدید مخالف ہیں۔ تیسری پارٹی کو گرانے کے لئے ا تحاد بنا لیا۔

زرداری ملک میں رہ کر پتے کھیل رہے ہیں لہٰذا ان کی سیاسی شطرنج کامیاب رہی اور مفرور گھوڑا چال ہار گیا۔ کل جو مریم کیلئے ابو جی کی طرح تھے یعنی زرداری انکل آج پھر دشمن کہلانے لگے اور انگور کھٹے ہیں کے مصداق شاہد خاقان عباسی نے زرداری پارٹی کو فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ دے ڈالا؟ تیسری پارٹی کی حکومت کوئی بھی نہیں گرانا چاہتا، اندر سے دونوں پارٹیاں حکومت کی مدت پوری کرنے پر متفق ہیں کہ حکومت گرانے سے حکومت کو ہیرو اور مظلوم نہیں بننے دینا چاہتے۔ میاں شہباز شریف کی سیاسی بصیرت حکومت گرانے کے قطعی حق میں نہیں۔ اس اعتبار سے دونوں پارٹیاں حکومت کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن کھیل رہی ہیں۔ ادھر مریم اور فضل الرحمن کے کورونا پازیٹیو کی افواہیں گردش میں ہیں۔ چونکہ دونوں عمران خان کے کورونا کا مذاق اڑا چکے ہیں لہٰذا شرمندگی سے اپنا کورونا ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ واللہ اعلم۔

طبیب نجی ملازم ہیں جو سیاسی تناظر میں مناسب خیال کیا جائے گا خبر باہر لائیں گے۔ زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنوایاپھر انہیں قائد حزب اختلاف بنوا دیا اور وہ بھی پی ڈی ایم کی قربانی دے کر نواز شریف، مریم نواز، فضل الرحمٰن سب کو حیران و پریشان کر دیا۔ مسلم لیگ ن بڑھاپے میں نظریاتی بننے چلی تو اداکاری کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ چالیس برس اقتدار کی سیاست کرنے والی جماعت اخیر میں بھارت نواز نکلی اور یکایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا ڈھونگ رچانے لگی بڈھے وارے نظریاتی بننے کا ڈرامہ زیادہ دیر نہ چل سکا اور زرداری نظریۂ ضرورت جیت گیا۔ اب بھلے اس چال کو فرینڈلی اپوزیشن کہو یا انگور کھٹے کہا جائے، بازی ہاتھ سے نکل چکی۔

مستقبل کے تناظر میں نہ فضل الرحمن کا انقلاب دکھائی دیتا ہے نہ مریم کا فوج مخالف بیانیہ ثابت قدم نظر آتا ہے، دونوں کو زرداری کی چال کا بخار چڑھ گیا ہے۔ مریم بستر سے پیغام بھیج رہی ہیں کہ وہ لندن نہیں جا رہیں جبکہ نجی ملازم ڈاکٹر عدنان لندن بھیجنے کا نسخہ تجویز کرنے آیا ہے۔ نواز شریف اور پیپلز پارٹی میں سیاسی دشمنی کی تاریخ شرمناک ہے۔ زرداری نواز شریف کی دشمنی کا بغض سینے سے لگا کر رکھتے ہیں اور جب موقع ملتا ہے کاری ضرب لگاتے ہیں۔ وہ نواز دور میں قید و بند کی صعوبتیں کبھی نہیں بھول پائے۔ انہیں میاں صاحب کا کالا کوٹ پہن کر اعلیٰ عدلیہ سے گیلانی صاحب کو نااہل قرار دلوانا یہ سب یاد ہے۔

انہیں یہ بھی یاد ہے کہ کس طرح 2015ء میں میاں صاحب کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ان کے قریبی دوستوں، ڈاکٹر عاصم حسین اور دیگر کو گرفتار کیا گیا۔ اور بھی سب ذرا ذرایاد ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جو گیلانی کے سینیٹر بننے پر شدید غصے میں تھے، وہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات پر خاصے خوش ہیں۔ وزیراعظم کا کورونا بھی خوشی میں زائل ہو گیا اور قرنطینہ کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی اور فرط جذبات میں میٹنگز بلانی شروع کر دیں۔