Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Gharelu Tashadud Se Mutaliq Behooda Bill

Gharelu Tashadud Se Mutaliq Behooda Bill

پاکستان میں کوئی نظام نہیں، کوئی اصول قاعدہ، نہیں مگر مغرب کی نقل میں سب سے آگے اور ذہین ترین ملک سمجھا جاتا ہے۔ مغرب میں تھرماس بنے تو پاکستان میں ماہرین ہو بہو تھرماس بنا کر " میڈ ان جرمنی " لکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ مغربی لباس، مغربی کلچر، مادر پدر آزادی میں چند گھرانے پاکستان کی تمام اخلاقیات بھرم دین ثقافت کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ یہ چند خاندان پاکستان کا چہرہ نہیں مگر ان کی وجہ سے پورا ملک بدنام ہوتا ہے۔ احساس کمتری میں مبتلا ان چند خاندانوں میں سے انتہائی بیمار طبقہ اٹھتا ہے اور اسمبلیوں تک پہنچ جاتا ہے اور آئے روز بیہودہ بل پیش کر کے مغرب کی غلامی کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ ان بیہودہ غلامانہ بلز میں قومی اسمبلی میں گھریلو تشدد سے متعلق ایک بل پیش کیا گیا ہے جس کا کوئی سر ہے نہ پیر، جعلی لبرل ازم کی ایک بھونڈی کوشش ضرور ہے۔

یہ بل نہ صرف پاکستانی اقدار کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ مذہبی تعلیم کی روح سے بھی انتہائی غیر مناسب ہے۔ بل کے اہم نکات میں شامل ہے کہ اگر بیٹا یا بیٹی آپ کی روک ٹوک اور سختی کو ہراسانی (Harassment) کے طور پر لیتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کی جارہی ہے، جس سے ان کی پرائیویسی، اور آزادی میں خلل پڑ رہا ہے تو پولیس تک شکایت جائے گی اور مغرب کی طرح والدین یا شوہر کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔ مغرب میں عورت آزادی اور قانون کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے معمولی سی رنجش پر پولیس بلا لیتی ہے جو شوہر کو ہتھکڑیاں پہنا کر جیل میں ڈال دیتی ہے۔ معمولی معمولی ڈانٹ ڈپٹ پر بچے والدین خاص طور پر باپ کو اندر کرا دیتے ہیں۔ اور اب اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کو بھی یتیم خانہ سمجھا جا رہا ہے جس کا کوئی اسلامی قانون نہیں اور اب ان بیہودہ بلز کا محتاج ہو گیا؟ اسلام میں خانگی نظام کا مکمل قانون موجود ہے۔

میاں بیوی میں لڑائی جھگڑے خاندان کے بزرگ نبٹاتے ہیں، گھر ٹوٹنے سے بچاتے ہیں، خاندانی نظام مضبوط کردار ادا کرتا ہے، گھر یلو تنازعات تھانوں کچہریوں تک جانے کی نوبت نہیں آتی مگر پاکستان کے خاندانی ڈھانچے کو بھرے بازار میں رسوا کرنے کا بل لایا گیا ہے۔ اولاد کو مزید بے خوف اور گمراہ کرنے کی سہولت پیش کی جا رہی ہے۔ بیوی کو قناعت صبر تحمل سے گھر بنانے کی تربیت دینے کی بجائے پولیس تھانوں کچہریوں میں ذلیل کرانے کی تجویز دی جا رہی ہے۔ مردوں کو حکمت و دانشوری سے معا ملات سمیٹنے کی بجائے گھریلو تنازعات کوپولیس تھانوں کے غیر مردوں کے سامنے ننگا کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ والد بچوں کی تربیت کے لئے سرزنش تودرکنار " میں تمہاری پٹائی کروں گا " اور "اگر تم نے یہ دوبارہ کیا تو تمہیں مار پڑے گی "وغیرہ کے الفاظ بولے تو بچہ پولیس کال کر سکتا ہے اور ان حالات میں آپ سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔ کسی فرد کی تضحیک ثابت ہونے پر آپ کو تین سال جیل اور ایک لاکھ جرمانہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے ہاتھ میں ڈیجیٹل کڑا پہنایا جاسکتا ہے جس کی مدد سے آپ کی تمام نقل و حرکت پر نگرانی کی جائے گی۔

بل کی رو سے عدالت باپ کااپنے ہی تعمیر کردہ گھر میں داخلہ ممنوع کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے سنگین نتائج کا آپ کو سامنا کرنا پڑے گا۔ ماں یا بیوی مظلوم معصوم ہی سمجھی جاتی ہے یہ بل مردوں یعنی باپ شوہر بھائی استاد کے خلاف لایا گیا ہے۔ باپ بھائی کا رعب ختم کرو گے تو جو تھوڑا بہت ڈر ہے اولاد اس سے بھی باغی ہو گی، ماں اور بیوی کے ہاتھ بھی کچھ نہ بچے گا۔ کیا کوئی شوہر بیوی کی بد زبانی تضحیک کے خلاف بھی عدالت جا سکتا ہے اور کیا اس کو کوئی تھانہ جج مظلوم مانے گا؟ صاف کیوں نہیں کہتے میرا جسم میری مرضی کی ذہنیت نے ایک خانگی نظام کی دھجیاں اڑانے کی ساز ش میں ایک مغرب زدہ بل پیش کر دیا ہے جس کی اسمبلی میں بیٹھا بیمار طبقہ حمایت کر رہا ہے۔ اس بیہودہ بل میں میاں بیوی کے مابین قائم کردہ رشتے کو بھی لبرل بنانے کی مکمل کوشش کی گئی ہے۔ جس میں اگر کوئی خاوند اپنی اہلیہ سے دوسری شادی کی خواہش ظاہر کرے تو اس اظہارِ خیال کو ذہنی تشدد تصور کیا جائے گا اور خاتون خانہ کے پاس اختیار ہے کہ عدالت سے رجوع کر کہ اپنے شوہر کو سزا کا مستحق بنا دے۔

ڈومیسٹک وائلنس بل کی ایک شق کے مطابق خاوند بیوی کو طلاق کی دھمکی دے تو جیل جائے گا اور اگر طلاق دے تو کوئی سزا نہیں۔ اس بل کو قرآن حدیث کی روشنی میں پرکھا جائے تو کوئی شق اسلام یا اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس بل کو حکومت اور اپوزیشن کی حمایت حاصل ہے۔ سینٹ میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام ف کے سینیٹرز نے اس بل کی مخالفت کی لیکن ان کے اعتراضات پر توجہ دیے بغیر یہ بل پاس کروا دیا گیا۔ اس بل نے ہمارے مذہبی اور معاشرتی کلچر کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔