سیاست کی عاشقی میں تمہاری نسلیں برباد ہو رہی ہیں، گھروں کا ماحول ستیا ناس ہو رہا ہے۔ اپنے گھروں اور بچوں پر توجہ دو۔ سمارٹ فون پر والدین بچے بوڑھے سب من پسند پروپیگنڈا سننے دیکھنے میں غرق ہیں یا بیمار ذہن فحاشی دیکھنے میں مشغول ہیں۔ نسلیں اور عورتیں بے قابو ہو رہی ہیں مگر سیاست پر بحث کرتے منہ سے جھاگ بہہ رہی ہے۔ لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں۔ سیاست کبھی ہوا کرتی تھی آجکل فحاشی ہے۔ جس کو شعور کہتے ہو جہالت اور گمراہی ہے۔ کتب بینی کا کلچر ختم ہو چکا۔ اب بس چورن بیچنے والے یو ٹیوبروں کا من گھڑت پروپیگنڈا زہر گھول رہا ہے۔ اپنے گھروں کی فکر کرو۔ تمہاری نسلیں جس ڈگر پر نکل چکی ہیں واپسی کا راستہ گم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جھوٹ سر چڑھ کر بک رہا ہے۔ سیاستدانوں نے نفرت اور انتقام کی جو آگ لگا دی ہے یہ تمہارے گھروں کو بھسم کر دے گی۔
اگر اسٹیبلشمنٹ شفاف الیکشن نہ کرانا چاہتی یا پی ٹی آئی کی مقبولیت سے گھبراتی تو پی ٹی آئی پر پابندی عائد کر سکتی تھی لیکن تمام پارٹیوں کو کھلی آزادی دی گئی اور الیکشن پر امن ہوئے۔ عمران نے توقع سے زیادہ ووٹ لیا لیکن اس کا سیاسی وطیرہ رہا ہے ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا پٹ سیاپا ڈال کر اپوزیشن میں بیٹھنا۔ عمران ملک اور سیاست سے کھیلنے آیا ہے، کام اسے آتا نہیں گھر تک چلا نہیں سکتا ساڑھے تین سال میں ملک کا بھی بیڑہ غرق کر دیا۔ قیدی اور مرحوم کو انتخابی مہم چلانے کی ضرورت نہیں ہوتی، ہمدردی اور تعزیت کے ووٹ ہمیشہ جیت جاتے ہیں سو اس نے بھی جیتنا تھا۔ حیرانی کیسی؟ لیکن اکثریت نے نو مئی کے خلاف ووٹ ڈالا اور نو مئی والی شر پسند پارٹی مقبولیت تو انجوائے کر سکتی ہے، حکمرانی نہیں۔ پہلے ہی 2018ء میں بیساکھیوں کے سہارے کرسی ملی تھی۔
عمران برانڈ کے طفیل اینکروں اور یو ٹیوبروں کی کمائی اور شہرت بھی آسمان کو چھو رہی ہے لہذا عمران کا چورن بیچنے کے لئے جھوٹا پروپیگنڈا بیچ رہے ہیں۔ عمران ریاض یو ٹیوبر کی مثال سامنے ہے اگر ادارے نے غائب کیا ہوتا تو یوں ٹر ٹر چورن بیچ رہا ہوتا؟ پانچ مہینے گمشدگی اور تھتھا پن کے ڈرامے نے اس کی کمائی تین گناہ بڑھا دی ہے۔ ایجنسیوں نے اٹھایا ہوتا تو سافٹ وئیر کیوں نہیں بدلا کیوں پہلے سے بھی زیادہ عمرانی بنا ہوا ہے؟ مگر عقل والے کم ہی ہیں اکثریت سوشل میڈیا چورن چاٹ رہی ہے۔ جس طرح کی ننگی دھاندلی اور دھونس 2018ء میں دنیا دیکھ چکی ہے اب پاکستان کاہر الیکشن شفاف دکھائی دیتا ہے، 2018ء کے لوٹے 2024ء میں اپنے اپنے گھونسلوں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔ فوج میں بغاوت کی کوشش بھی نو مئی کوبے نقاب ہوئی۔ ملک توڑنے کی خواہش بھی بوٹوں تلے کچل دی جائے گی۔
ہر سپہ سالار" ابو جی "نہیں ہوتا، لاڈ شاڈ مک گئے اب مقبولیت مقبولیت کھیلو۔ اکثریت پر تکبر نہ کرو۔ اکثریت شخصیت پرستی کے شرک میں مبتلا ہو جائے تو حق سچ سمجھ بیٹھو گے؟ قرآن فرماتا ہے "حق کے راستے پر چلنے والے لوگ ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں"یعنی ایسا نہیں کہ جس بات کو اکثریت نے اختیار کیاہو، وہ حق ہو۔ اکثریت آسان راستہ تلاش کرتی ہے۔ "چلو تم ادھر کو ہَوا ہو جدھر کی"۔ تحریک انصاف لوٹوں کی جماعت تھی، جہانگیر ترین کے جہاز میں بھر بھر کے لائے جاتے تھے تب " وکٹ گرنا" کہتے تھے؟ جب واپس چلے جائیں تو لوٹا کہتے ہو؟ بہت سے پہلے ہی پلٹ گئے تھے باقی یہ نعرہ لگاتے ہوئے لوٹ رہے ہیں کہ "ہم کوئی غلام ہیں"۔ طالبان خان نے شہد والی بوتل والے "غنڈہ پور"کو وزیر اعلیٰ کے پی کے نامزد کرکے دہشت گرد جماعت ہونے پر مہر ثبت کر دی ہے۔ جادو گرنی نے استخارہ نکالا ہوگا۔
مؤرخ اگر یوتھیا نہ ہوا تو بشریٰ بی بی کا ذکر مورخ تاریخ میں جلی حروف سے لکھے گا کہ 75 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون نے جعلسازی کے ذریعے ایک کمزور عقیدہ شخص کو روحانیت کا جھانسہ دیکر اْلو بنایا اور اقتدار تک رسائی حاصل کی، بے تحاشہ مال بنایا اور اپنی لونڈی کے ذریعے مال کو ٹھکانے بھی لگادیا۔ اور مؤرخ اس بات پر قلم توڑ دے گا کہ جس بیوقوف کو اْلو بنایا پھر اسی کو ہی 24سال کیلئے جیل میں بند کروایا سیاست سے نااہل کروایا اور اسی کے عالیشان گھر میں خود کو نظر بند کروایا۔
بشریٰ بی بی بنی گالہ کے پر تعیش گھر میں کافی کا مگ لیکر ٹی وی پر تحریک انصاف کی بکھری ہوئی جماعت کا تماشہ دیکھ کر مسکرائی ضرور ہوگی۔ ایک عورت نے پوری جماعت کو ہیجڑا بنادیا۔ تمہیں پتہ تب لگے گا جب تمہاری عورتیں اور نسلیں تمہاری دنیا و آخرت برباد کر جائیں گی۔ کسی سیاسی جماعت سے منسلک ہونا یا لیڈر سے پیار کرنامعیوب نہیں۔ شخصیت پرستی میں نفرت اور انتقام کے جذبات میں ملک اور تعلقات رشتوں کو سولی چڑھا دینا خوفناک مستقبل ہے۔