سنا ہے چوہدری نثار اپنے ساتھ 20 نواز لیگی اور 2 پیپلز پارٹی کے ایم این اے، جبکہ 35 ایم پی اے لا رہے ہیں یہ اعلان 27 مارچ کو سٹیج سے ہوگا؟ سوشل میڈیا پر عمران خان کی ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں وہ چودھری نثار علی خان کو ایک نمبر کا جھوٹا انسان کہہ رہے ہیں۔ یہ کلپ چودھری نثار کی عمران سے حالیہ ملاقات کے بعد منظر عام پر لائی گئی ہے۔ ان باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔
عمران خان نے شیخ رشید کو آن ریکارڈ یہ تک بول دیا تھا کہ وہ انہیں اپنا چپڑاسی رکھنے کو بھی تیار نہیں اور آج شیخ رشید ان کا وزیر داخلہ ہے۔ عمران خان نے چودھری برادران کو ڈاکو بولا تھا آج یہ ڈاکو ان کے اتحادی اور سپیکر پنجاب ہیں۔ خان صاحب کے یوٹرن کی متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر موڈ مزاج عادت فطرت سے قطع نظر ان کی چودھری نثار سے حالیہ ملاقات بہر حال اہمیت کی حامل ہے۔
چودھری نثار چار سالہ روزہ بنی گالہ افطار کرنے پہنچ گئے۔ چودھری نثار علی خان کو کبھی وزیر اعظم دیکھتے تھے مگر انہوں نے تو وزارت اعلیٰ پنجاب کی کھجور سے افطار کر لی؟ دل مانتا تو نہیں۔ لیکن سیاست میں کچھ بھی متوقع ہے۔
قارئین سے ہم آج اپنا چھ سال پرانا لکھا ایک کالم شئیر کرنا چاہتے ہیں، قارئین خود فیصلہ کریں عمران خان اور چودھری نثار چھ سال بعد کہاں کھڑے ہیں ؟ کالم میں لکھا تھا" چودھری نثار علی خان نے ہم سے دوران ملاقات کہا کہ میرا رویہ سیاسی نہیں جو کہ سیاست کی دنیا میں اچھی بات نہیں سمجھی جاتی۔ ہم سے پہلے دور میں غیر ملکیوں کو ریوڑیوں کے بھائو پاکستانی پاسپورٹس اور ویزے ایشو کیے جاتے رہے جس کے نتائج آج ہم دہشت گردی کی صورت میں بْھگت رہے ہیں۔
چودھری نثار نے کہا انسان فرشتہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں فرشتے میسر آ سکتے تو عمران خان کو ضرور مل جاتے۔ عمران خان اور شہباز شریف ان کے یار ہیں۔ چوھدری نثار علی خان نوائے وقت کے پرانے قاری ہیں اور انہوں ہماری بدلتی تحریروں سے یہ بات محسوس کی کہ عمران خان کی صلاحیتوں پر کالم لکھنے والی کو خان کی سیاسی پالیسیوں اور رویے نے مایوس کر دیا۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو تنقید برداشت کرنے کا ظرف رکھتا ہو۔
ڈی چوک دھرنے اور ریحام خان سے شادی نے عمران خان کے غیر سیاسی رویے کو بْری طرح ایکسپوز کیا ہے۔ ان کے قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ خان صاحب کو ہماری تحریریں "چْبھ" گئی ہیں لہٰذا وہ ہمارا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ہم نے چودھری نثار کو ان کے جگری یار کی تنگ دلی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان اپنی تمام تر غلطیوں اور کوتاہیوں کے باوجود ہمیں اچھے لگتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم نے بْرے کے گھر تک جانے کا فیصلہ کیا اور بنی گالہ ان کے گھر کے باہر لگے بیرئیر پر پہنچ کر موصوف کے نام ایک خط لکھا اور ان کے سیکرٹری عون چودھری کے حوالے کر دیا۔
اس محل کا بیرئیر فقط خوشامدیوں اور مفاد پرستوں کے لئے اٹھایا جاتا ہے۔ لیڈر کا دل بڑا ہونا چاہئے۔ چونکہ قوم اپنے جیسوں کا انتخاب کرتی ہے لہٰذا نتائج کی خود ذمہ دارہے۔ چودھری نثارنے چونکہ عمران خان کو اپنا جگری یار کہا تو ہم نے نہ چاہتے ہوئے دل کی کچھ باتیں ان سے شیئر کر دیں۔ چودھری نثار مسلم لیگ سے قلبی وابستگی رکھتے ہیں اور میاں شہباز شریف کے ساتھ دوستی ان کے لئے سیاست کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے وگرنہ چودھری نثار کی باڈی لینگویج بتاتی ہے کہ یہ بندہ فوجی مزاج رکھتا ہے۔ اسے سیاستدان نہیں ہونا چاہیے تھا۔ خاندانی پس منظر انسان کی شخصیت سے عیاں ہو جاتا ہے۔ چودھری نثار علی کی حب الوطنی اور صاف کردار و شخصیت کے مخالفین بھی معترف ہیں۔ چودھری نثار کابھی نوائے وقت کے سنجیدہ قارئین میں شمار ہوتا ہے۔ ہماری تنقید برداشت کرنے کا
ظرف تو رکھتے ہیں۔ ایک نظریاتی سوچ کی حامل شخصیت سے ملک و قوم کے مسائل پر بولنا اور سننا اچھا لگا۔ ملکی و قومی مسائل کا درد چونکہ سانجھا تھا لہٰذا وطن کا درد بانٹنے میں آسودگی محسوس ہوئی۔ چودھری نثار نے بتایا کہ ملک اس وقت جس مقام پر کھڑا ہے اس کو دیکھ کر میں نماز میں بھی روتا ہوں۔ مجھ سے جو بن پاتا ہے دن رات کر نے کی کوشش کرتا ہوں، ملاقاتی وقت ضائع کر دیتے ہیں اور ملاقاتیں نہ کرو تو مجھے مغرور خیال کرتے ہیں۔ لوگوں میں حرام حلال کی تمیز مٹ چکی ہے۔
قحط الرجال ہے۔ ایمان دار لوگ ملنا مشکل ہو گئے ہیں جبکہ ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لئے صاف لوگ درکار ہیں۔ چودھری نثار علی نے استعفیٰ بھی دے دیا تھا جس کی وجہ انہوں نے بتائی کہ انہوں نے ٹی وی پر کہا تھا کہ اگر ایک سال کے دوران ملک کے حالات میں بہتری لانے میں کامیاب نہ ہو سکے تو وہ مستعفی ہو جائیں گے لیکن وزیراعظم نواز شریف نے ان کا استعفیٰ قبول نہیں کیا۔
چودھری نثار نے کہا کہ وہ خوشامد نہیں کر سکتے۔ وہ وزیراعظم کو اپنی رائے اور فیصلے سْنا دیتے ہیں "۔۔ چودھری نثار وزیر داخلہ تھے اور اپنے وزیر اعظم نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھی تھے مگر مریم نواز کی جانشینی قبول نہ کر سکے۔ اس موقف میں ہم چودھری نثار علی کی مکمل حمایت کرتے ہیں کہ موروثیت ہی چلانی تھی تو بھائی اور بھتیجے کو جانشین بناتے جنہوں نے سیاست اور پارٹی کو عملی طور پر چلایا۔
بیٹی کو بطور " کرائوڈ پلر " استعمال کریں مگر وزارت اعظمی کے لئے بھائی شہباز شریف سے مناسب جانشینی دکھائی نہیں دیتی۔ نواز شریف کے تکبر نے چودھری نثار علی خان کو ان سے الگ کر دیا۔ آج چار برس بعد چودھری نثار عمران خان کی چوکھٹ پر جا پہنچے۔ امید ہے کسی اعلیٰ عہدے سے روزہ افطار کریں گے۔