شخصیت پرستی انسان کو سوچنے سمجھنے سے ہی محروم کر دیتی ہے۔ بھٹو اوران کی بیٹی بے نظیر بھٹو سے اندھی عقیدت کا تسلسل ان کے گدی نشین سپوت بلاول تک جاری ہے۔ عمران خان، نوازشریف، فضل الرحمان، سراج الحق اور دیگر سیاسی جماعتیں میدان سیاست میں موجود ہیں۔ ان کے پیروکار اپنے اپنے لیڈر کی شخصیت کو پوج رہے ہیں۔ اور ان رہنماؤں کی کسی بھی غلطی پر تنقید کو برداشت کرنے کے قائل نہیں اور ان لوگوں کی اندھی تقلید کا شکار ہو کر ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔
عدم برداشت اور انتہا پسندی نے ہماری سیاسی بلوغت پر جمود طاری کر دیا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا "قیامت کے دن بدترین حال میں وہ شخص ہو گا جس نے دوسروں کی دنیا بنانے کی خاطر اپنی آخرت برباد کر ڈالی۔ ظلم کے معاملہ میں قوم یا لیڈر کا ساتھ دینا "عصبّیت"کہلاتا ہے۔ جو شخص کسی ناجائز معاملہ میں اپنی قوم یا لیڈر کی مدد کرتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی اونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور یہ اس کی دْم پکڑ کر لٹک گیا ہو تو یہ بھی اس کے ساتھ جا گرا، بے جا حمایت ہلاکت ہے۔
وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیّت کی دعوت دے اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیّت کی بنیاد پر جنگ کرے اور ہم میں سے وہ بھی نہیں ہے جو عصبّیت کی حالت میں مرے" (مشکوٰۃ، ابوداؤد، ابن مسعود) "جو بندہ دنیا میں کسی بندے کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا " (مسلم) نبی کریم ؐ منبر پر تشریف لائے اور نہایت بلند آواز سے فرمایا "اے وہ لوگو! جو اپنی زبان سے اسلام لائے ہو اور ایمان تمہارے دلوں میں نہیں اترا ہے، تم لوگ مسلمانوں کو ایذا مت پہنچاؤ اور نہ ان کے عیوب کے پیچھے پڑو۔ جو لوگ اپنے مسلمان بھائی کے پیچھے پڑیں گے تو اللہ ان کے عیب کے پیچھے پڑ جائے گا اور جس شخص کے عیب کے پیچھے اللہ پڑ جائے گا اسے رسوا کر ڈالے گا اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو"۔
صحابہ کرام ؓمذکورہ ارشادات مبارک کا پس منظر بیان فرماتے ہیں کہ منافقین مسلمانوں کے خاندانی شرمناک عیوب جو زمانہ جاہلیت میں ہوئے تھے لوگوں کے سامنے بیان کرتے، انہی لوگوں کو حضورؐ نے حدیث میں ڈانٹا ہے، خطاب کے دوران حضور کی آواز اتنی بلند ہو گئی تھی کہ آس پاس کے گھروں تک یہ آواز پہنچ گئی اور عورتوں نے بھی سنا۔ اپنی زندگیوں میں انقلاب لانے کی کوشش کریں اپنی ذات کو تبدیل کرنے کی سعی کریں۔ اپنے گھر کا نظام درست کرنے کی طرف توجہ دیں۔ تم بدل جا ؤ گے تو پاکستان بدل جائے گا۔ تمہارا مرشد تمہارا ضمیرہے۔ تمہارا لیڈر تمہارا کردار ہے۔ اپنے ضمیر کو جگاؤ، اپنے کردار کو بناؤ۔ خود سے جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔
آقاؐفرماتے ہیں "کسی کی تعریف اور برائی میں اعتدال برتو۔ کسی کی تعریف میں اتنی چاپلوسی مت کروکہ کل نوے کی ڈگری پر گھو م جاؤ تو مخالفت میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دو"۔ سیاستدان بد عنوانی اور بے ایمانی کی وجہ سے عوام کی حمایت سے محروم ہو چکے ہیں۔ پاکستان کرکٹ میچ پوری دنیا سے ہار جائے مسئلہ نہیں مگر بھارت سے ہار جائے تو پاکستانیوں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ اگر ایک کھیل پاک بھارت تعصب بے نقاب کر سکتا ہے تو پورا ملک بھارت کے حوالے کیوں کر کیا جا سکتا ہے۔
نظریہ پاکستان ہو یا پاکستان کی سرحدوں کا معاملہ، عوام سیاستدانوں پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ بیرونی دنیا کو اگر کسی سے خدشہ ہے تو اس ملک کی فوج اور مذہبی جماعتوں سے ہے۔ فوج کو وار آن ٹیرر کی سازش نے اپنے جال میں پھنسا رکھا ہے اور مذہبی جماعتیں اپنا حقیقی کردار پس پشت ڈال کر دہشت گردی کو جہاد سے تعبیر کر رہی ہیں۔ دین کو بطور ہتھکنڈا جس بْری طرح پاکستان میں استعمال کیا جا رہاہے اسے محض "چنگیزی" کہا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹراقبال نے جس سیاست کی بات کی تھی وہ پاکستانیوں کو دیکھنا نصیب نہ ہو سکی البتہ" چنگیزی "نے دین کی جگہ لے لی۔ مذہبی مافیاز نے اپنے پیروکاروں کو یہ مصرعہ تو رٹا دیا "جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی" لیکن انہیں دین نہ سکھا سکے۔ سیاستدانوں میں ایک بھی نام قابل ذکر نہیں جو اس ملک کو سازشوں کے جال سے نجات دلانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ سب اقتدار کے چکر میں ہیں۔ حصول اقتدار سے پہلے جو کچھ کہتے ہیں اقتدار پانے کے بعد اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔
پاکستان کو تباہی سے نکالنے کے لیئے ایک مستقل مزاج، دلیر، جرأت مند اور ایماندارحکومتی ٹیم کی ضرورت ہے۔ اللہ کے اولیاء نے پاکستان تو بنا دیا مگر اسے سنبھالنے کے لئے کوئی مسیحا نہ مل سکا۔ 74 برس سے کسی مسیحا کا انتظار ہے۔