Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Larkiyon Ke Taleemi Akhrajaat Bojh Kyun?

Larkiyon Ke Taleemi Akhrajaat Bojh Kyun?

لوگ اکثر کہتے ہیں لڑکیوں کو تعلیم کیوں دلوائیں اور اس پر اتنا خرچا کیوں کریں جب اس نے آگے جا کر چولہا چوکی ہی کرنی ہے اور گھر سنبھالنا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ عورت گھر نہ سنبھالے بلکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں اسے تعلیم ملے تاکہ وہ گھر کے ساتھ ساتھ نسلوں کو بھی اچھے سے سنبھالے۔ عورت کے دم سے یہ معاشرہ قائم ہے جو اپنی گود میں نسلوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ اب جس نے نئی نسل کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ آگے چل کر اس معاشرے کو سنبھال سکے جب وہ خود کسی قابل نہ ہو تو وہاں نئی نسل کیا کرے اور کیسے ترقی کرے۔

اسی مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے مومنہ چیمہ فائونڈیشن مستحق طالبات کو وظائف کی سہولت مہیا کر رہی ہے۔ رزق حلال کمانے والا ایک باپ بمشکل لڑکے کے تعلیمی اخراجات کا بوجھ اٹھالے تو بڑی بات سمجھی جاتی ہے کجا لڑکیوں کو تعلیم دلائے۔ غریب اور سفید پوش باپ کی بیٹی سرکاری سکول سے بمشکل میٹرک کی تعلیم حاصل کر تی ہے جبکہ لڑکیاں محنتی اور با صلاحیت ہونے کے باوجود پیشہ ور ڈگریاں حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ غریب باپ بیٹی کو شہر بھیجنے اور اس کے تعلیمی اخراجات کا بوجھ اٹھانے کا اہل نہیں ہو سکتا لہذا پاکستان کا ٹیلنٹ گھروں میں پڑا سڑ جاتا ہے اور امیر کی بیٹی مہنگے نجی اداروں سے ڈگریاں لے کر بھی معاشرہ کا حصہ نہیں بنتی۔ اچھے رشتے یا اچھے سٹیٹس کے لئے میڈیکل میں بھی داخلے لے لیتی ہیں لیکن تعلیم نا مکمل چھوڑ کر اچھا رشتہ ملتے ہی شادی کرا لیتی ہیں اور ڈگری لے بھی لیں تو اس کا استعمال نہیں کرتیں کہ پیسہ ان کا مقصد نہیں ہوتا، زیادہ تر بیرون ملک چلی جاتی ہیں یا گھر بیٹھ کر تعلیم گنوا دیتی ہیں۔

جبکہ غریب کی لڑکی تعلیم حاصل ہی ملازمت کرنے کے لئے کرتی ہے تا کہ خاندان کو غربت اور قرض کی دلدل سے نجات دلا سکے۔ لیکن غریب کی بیٹی کے کالج کے اخراجات کون برداشت کرے؟ پاکستانیوں میں ابھی اتنا شعور بیدار نہیں ہو ا کہ تعلیم کو حقیقی زیور تسلیم کر سکیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں مقیم پاکستانی بھی الا ما شا اللہ وطن عزیز میں تعلیم کے فروغ میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اپنی سیاست اورچودھراہٹ پر ہزاروں ڈالر خرچ کر دینے والے اپنے گائوں کے غریب بچوں کو تعلیم دلانے سے محروم ہیں؟ پاکستان جہاں ملازمت کے لحاظ سے بی اے کی ڈگری کی وقعت بھی میٹرک کے برابر ہے وہاں پیشہ ور ڈگری کے بغیر کوئی ملازمت ملنا مشکل ہو چکا ہے۔ غریب کے بچے ملازمت کے لیئے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ملازمت کا نہ ملنا بھی ایک تکلیف دہ موضوع ہے لیکن تعلیم کا حاصل نہ کرسکتا اس سے بھی اذیت ناک ہے۔ پاکستان کے اسلامی مملکت ہونے کے باوجود یہاں تعلیم کی اہمیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ سرکاری سکولوں کا جو حال ہے، اس سے بہتر ہے سرکاری نظام تعلیم بند کر دیا جائے۔ بچوں کونہ پینے کا صاف پانی میسر ہے، نہ معیاری سہولیات فراہم کی جا تی ہیں۔

بلاول، حمزہ شہباز، مریم نواز، سلیمان خان، قاسم خان، کے سکول اور ہیں اور ایک عام پاکستانی کے بچوں کے سکول اور ہیں۔ غریب بچے کے سکول کا نام " سرکاری سکول "ہے اور امیر بچے کے سکول کا نام " پرائیویٹ سکول " ہے۔ امیر اور غریب میں فرق برقرار رکھنا امیر کی خواہش ہے۔ امیر نہیں چاہتا کہ غریب کا بچہ اس قابل ہو جائے کہ اس کے بچے کے برابر والی کرسی پر بیٹھ کر انگریزی بولنے کی جسارت کر سکے۔ غریب ملک کے حکمرانوں کے بچے انگریزی نجی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیئے مغربی درسگاہوں میں بھیج دیئے جاتے ہیں۔ کسی امیر کا بچہ ٹاٹ کلچروالے سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کرتانہیں دیکھا گیا۔