اعلیٰ کردار منصف حاکم اور سلطان اپنی سلطنت کے بازاروں میں اکثر بھیس بدل کر گشت کیا کرتے تا کہ انہیں کوئی پہچان نہ سکے اور وہ یہ معلوم کر سکیں کہ آیا ان کے وزراء اور مشیران خوشامد یا دروغ گوئی سے تو کام نہیں لے رہے۔۔ گو کہ اکثر حکمرانوں، سلطانوں اور بادشاہوں کی بیگمات بھی آجکل کی بیگمات کی طرح عیش و آرام اور نمو د نمائش کی دلدادہ تھیں اور ان کے یہ شوق اکثر اوقات ان کے شوہروں کے لیئے ہزیمت کا باعث بنتے تھے لیکن نیک دل حکمران عوام الناس کی خبر گیری سے غفلت جرم تصور کرتے تھے۔
گلیوں اور بازاروں میں ایک عام شہری کی حیثیت سے گشت کیا کرتے اور عوام کے مسائل انہیں اللہ کا بندہ بنائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے۔ سلطان نورالدین زنگی کی اہلیہ نے ایک مرتبہ مالی تنگی کی شکایت کی تو سلطان نے اپنی تین دکانیں جن کی سالانہ آمدنی بیس دینار تھی ان کو خرچ کے لئے دے دیں، جب اہلیہ نے اس کو کم سمجھا تو سلطان نے کہا کہ اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں اور جو کچھ تم میرے پاس دیکھتی ہو، وہ سب رعایا کا ہے، میں تو محض خزانچی ہوں، میں تمہاری خاطر اس امانت میں خیانت کرکے جہنم میں جانا نہیں چاہتا"۔
ابن اثیر لکھتے ہیں کہ خلفاء راشدین اور عمر بن عبدالعزیز کے بعد نورالدین زنگی سے بہتر سیرت اور ان سے زیادہ عادل انسان میری نظر سے نہیں گزرا۔ خلفاء راشدین کے بعدنیک دل سلطان بھی اپنی زندگیاں آقا نبی کریمؐ کے احکامات کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتے۔ عوام کا خیال اپنی اولاد کی طرح رکھتے۔
میاں نواز شریف نے جس روز وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا، اس روز ٹی وی سکرین پر کہا کہ عوام وزیر اعظم کے لیئے اولاد کی طرح ہوتے ہیں۔ مگر حاکم وقت کی اپنی اولاد اور ان کے اطراف وزیر مشیر اور ان کے خاندان عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ غریب عوام کی زندگی قابل رحم ہے۔ آقاؐ کے حضور حاضریاں دینے والے یہ حاکم وقت کسی روز اپنے پہلو میں نور الدین زنگی کا دل لے کر پیش ہوئے ہوتے تو اپنے اہل خانہ اور عوام کے درد میں فرق محسوس کرسکتے۔ حاکم کہلانے کا وہی حقدار ہے جو دنیا کی حقیقت کو پا گیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐایک مرتبہ بازار سے گزرے تو آپ نے بھیڑ کا ایک بچہ جو چھوٹے کانوں والا تھا اسے مرا ہوا دیکھا، آپ نے اسے اٹھاکر اپنے اطراف موجود اصحابہ کرام سے پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جو اسے ایک درہم میں خریدنا چاہے؟ صحابہ کرام نے کہا یا رسول اللہ اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو چونکہ اس میں ایک عیب ہے، اس کا ایک کان چھوٹا ہے، ہم اسے نہ خریدتے اور اب تو یہ مردار ہے۔
آپ نے فرمایا "اللہ کی قسم! اللہ کے ہاں یہ دنیا اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے، جس طرح تمہارے نزدیک یہ مردار ذلیل ہے "۔ (مسلم)الا ما شا اللہ ہمارے حکمران سمیت خاندان اور کابینہ مردار کھانے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ ایماندار نیک نیت ہوتے تو پاکستان کا آج یہ حال نہ ہوتا۔ معاشی دیوالیہ کر دیا ہے سب نے۔ بھکاری ملک بن کر رہ گیا ہے۔ صادق و امین لوگوں کے دم سے ہی پاکستان قائم ہے۔
محمد علی جناح جنہوں نے پاکستان دیا کیا وہ شخص صادق و امین نہیں تھے؟ پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والے مسلمانوں نے اپنے گھر بار چھوڑ دئیے اور پاکستان آ کر بھی قانونی طریقے سے گھر بار حاصل کیے۔ وہ سب صادق و امین نہیں تھے؟ ہمارے والد جیسے نوجوانوں نے مہاجرین کے لئیے انصار جیسا سلوک کر کے نبی کریم کی سنت کو زندہ رکھا، اپنے گھر اور دل کھول دئیے۔ صادق و امین لوگ تھے وہ۔
چودہ صدی پرانی بات نہیں ستر سال پہلے کی بات ہے۔ مہاجرین کی لہو لہان ٹرینیں جب پنجاب میں داخل ہوتیں اور ان ٹرینوں میں لاشوں کے ساتھ سونے چاندی زیورات اور پیسے کے بکس بھی ملتے تو ہمارے والد محترم جیسیے صادق و امین رضاکار لاشیں اتار لیتے اور مال و زر کے بکسوں کو ہاتھ تک نہْ لگاتے کہ زندہ بچ جانیْ والے مہاجرین کے کام آئیں گے۔ مسلمان روزہ نماز عمرہ حج زکوات کرتا ہے تو اپنے لئیے کرتا ہے۔
ضروری نہیں کہ یہ سب عبادات کرنے والا صادق و امین بھی ہو۔۔ دبء لندن میں ہرنتھو خیرے نے اثاثے بنا رکھے ہیں۔ عمارتیں فلیٹ خرید رکھے ہیں۔ اور بڑی اڑان ماری تو نیویارک میں اپارٹمنٹ اور کینیڈا میں گھر خرید لیا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ پاکستان غریب ملک ہے؟ جائز کمائی سے بیرون ممالک مستقبل محفوظ کیا جاسکتا ہے؟ جس کو دیکھو یہی کہتا سنا گیا کہ ما بدولت جدّی پشتی رئیس ہیں۔
پاکستان جب بنا تھا کتنے جدّی پشتی رئیس تھے۔ جو لوہار ترکھان موچی قصائی کسان تھا الا ماشا اللہ اج اس کی نسل خود کو جدّی پشتی ریئس کہلاتی ہے؟ پاکستان بد نصیب مملکت خداد داد جس پر حکمرانی اور عیش و مستی کرنے والے بھی اس کو غیر محفوظ خیال کرتے ہیں۔۔ کیا قسمت پائی ہے اس مملکت خداداد نے جس کے الا ما شا اللہ کرپٹ لوگ اسے بار بار بیچ رہے ہیں۔