ہم کنفیوز امت مسلمہ کی زندگیوں سے ایک اور برس کم ہو گیا، معروف انگریزی کیلنڈر کا ایک اور نیا سال شروع ہو گیا اور ہم وہی ہمارے اطوار بھی وہی۔ کائنات میں کچھ بھی نہیں بدلا البتہ مسلمان بدل گیا۔ مسلمانوں کا سال تو ماہ محرم سے شروع ہوتا ہے۔ ابتدائے اسلام میں مسلمانوں میں عام طور پر تاریخ نویسی کا دستور نہیں تھا، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے حکومت کے مختلف علاقوں میں خطوط روانہ کیے جاتے ہیں، مگران خطوط پر تاریخ درج نہیں ہوتی، حالانکہ تاریخ لکھنے کے بے شمار فوائد ہیں اور ریکارڈ کے محفوظ رکھنے میں کافی سہولت ہے، آپ نے خط کس دن تحریر کیا، کس دن روانہ کیا، کب پہنچا، کس دن حکم جاری ہوا، کس دن اور کس وقت سے اس پر عمل کا آغاز ہوا، ان سب باتوں کے جاننے اور سمجھنے کا دارومدار تاریخ لکھنے پر ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی اس مدلل بات کو بہت معقول سمجھا اور بہت سراہا، فورا مشورے کے لیے اکابر صحابہ کرام کی ایک میٹنگ بلائی اور حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ مفید رائے مجلسِ مشورہ میں اکابر صحابہ کرام کے سامنے رکھی، تمام صحابہ کرام کوبھی حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ بات بہت پسند آئی، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں مشورہ طلب کیا کہ اس کا آغاز کب سے ہو، تو اکابر صحابہ کرام کی طرف سے اس سلسلے میں چار قسم کی آراء سامنے آئی، ایک جماعت نے مشورہ دیا کہ حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کے سال سے اسلامی سال کا آغاز ہو۔
دوسری جماعت نے یہ رائے دی کہ نبوت کے سال سے اسلامی سال کا آغاز ہو اور تیسری جماعت نے یہ مشورہ دیا کہ ہجرت کے سال سے اسلامی سال کا آغاز ہو، جب کہ چوتھی جماعت کا یہ خیال تھا کہ آپ ﷺ کے سالِ وفات سے اسلامی سال کی ابتداء کی جائے۔ یہ چار قسم کی رائیں اور مشورے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ذریعہ بلائی گئی، مجلسِ شوریٰ میں پیش کیے گئے، ان آراء میں سے کسی ایک کے انتخاب اور اس کو حتمی شکل دینے کے لیے صحابہ کرام کے درمیان بحث ومباحثہ ہوا، غور وخوض کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ صادر فرمایاکہ ولادت یا نبوت کی تاریخ اور دنوں میں اختلاف کے باعث ولادت یا نبوت سے اسلامی سال کا آغاز کرنے میں اختلاف رونما ہو سکتا ہے اور وفاتِ نبوی سے اسلامی سال کی ابتداء کرنا اس لیے مناسب نہیں کہ وفاتِ نبوی کا سال اسلام اور مسلمانوں کے لیے رنج وغم اور صدمہ کا سال ہے، اس لیے ہجرت سے اسلامی سال کا آغاز کرنا زیادہ مناسب ہے، کیونکہ ہجرت نے حق وباطل کے درمیان واضح امتیاز پیدا کردیا، اسی سال سے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام امن وسکون کے ساتھ بلاخوف وخطر پروردگار کی عبادت کرنے لگے، اسی سال مسجدِ نبوی کی بنیاد رکھی گئی جو دراصل دینِ اسلام کی نشرواشاعت کا مرکز تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ ان دلائل و وجوہ کی بناء پر تمام صحابہ کرام کا اتفاق ہوگیا کہ اسلامی سال کی ابتداء ہجرت کے سال سے ہی کی جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ بلائی گئی، اس شوریٰ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سن ہجری کا آغاز کس مہینے سے ہو؟
اس سلسلے میں بھی صحابہ کرام کی طرف سے مختلف آراء پیش ہوئیں، ایک جماعت نے یہ کہا کہ رجب کے مہینے سے سال کے مہینے کی ابتداء کی جائے اور دوسری جماعت کا خیال تھا کہ رمضان کے مہینے سے؛ کیونکہ رمضان ہی وہ افضل ترین مہینہ ہے، جس میں پورا قرآن نازل ہوا، تیسری جماعت کی رائے یہ تھی کہ محرم کے مہینے سے اس کا آغاز ہو؛ کیونکہ ماہ محرم میں حجاج کرام حج کرکے واپس آتے ہیں اور چوتھی جماعت نے یہ مشورہ دیا کہ ربیع الاوّل سے سال کے مہینے کی ابتداء کی جائے، کیونکہ اسی مہینے میں حضور ﷺ نے ہجرت فرمائی کہ شروع ربیع الاوّل میں مکہ مکرمہ سے سفر شروع کیا۔
ان چار قسم کی آراء کے سامنے آنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باہم مشورے کے بعد محرم الحرام کو ترجیح دی؛ کیونکہ زمانہ جاہلیت میں بھی عرب میں سال کا پہلا مہینہ محرم کو قرار دیا جاتا تھا تو سن کے مہینے کے لیے محرم الحرام کے مہینے کا انتخاب کیا تاکہ نظامِ سابقہ بھی اپنی اصلی حالت پر باقی رہے۔ ہر سال کا ہر وہ پل مبارک باد ہے جو سرکار کی چوکھٹ پر گزر جائے۔ جتنا دیا سرکار نے مجھ کو اتنی میری اوقات نہیں۔