حمزہ شہباز کی ضمانت مریم کے سیاسی رنگ میں بھنگ کے مترادف ہے۔ زمانے کو دکھانے کے لئے کہتی ہیں کہ کزن کی رہائی سے وہ ایک سے دو گیارہ ہو جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ کزن کی رہائی سے مریم پنجاب کی سیاست سے "نو دو گیارہ "ہوجائیں گی۔ بلاشبہ ووٹ بینک ابو جی کا ہے لیکن پنجاب میں مسلم لیگ شہباز کا طوطی بولتا ہے۔ نام شہباز کا ووٹ نواز کا۔ ابو جی نے لاڈلی کو جانشین بنانے پر بڑی محنت کی پر گل بنی نہیں۔ برانڈڈ ملبوسات میک اپ اور جدید موبائل فون پر فدا مردوں نے ووٹ شہباز کو ہی دینا ہے۔ اندر سے دقیانوسی ہوتے ہیں یہ مسلم لیگی۔ بیگم کلثوم نواز نے مشرف کی دشمنی کو للکارتے ہوئے کہا تھا ہمارے خاندان کی عورتیں چادر چاردیواری کا تقدس رکھتی ہیں، سیاست میں نہیں آتیں، مجھے میری مجبوری لائی ہے۔
آج جب مریم کے بڑے بڑے سیاسی پوسٹرز گوالمنڈی سے گوجرانوالہ تک گلیوں محلوں میں آویزاں دیکھتے ہیں تو دماغ سوچنے پر اکساتا ضرور ہے کہ خاندان کے مردوں کی موجودگی میں اس بی بی مریم کو ماں کا تقدس توڑنے پر کس نے مجبور کیا؟ چلو مانا شوہر بیچارہ قائد اعظم کے دربار میں دھمال ڈالنے سے زیادہ کا وژن نہیں رکھتا، بھائی بھی بیچارے باپ کے اثاثوں کو جپھا مارے فرنگی کے پیروں میں پڑے ہوئے ہیں مگر چاچا جی اور کزن حمزہ تو لاہور میں ہی موجود ہیں پھر بیٹی کی تصویریں چوراہوں پر لٹکانے کی مجبوری کیوں کر پیش آئی؟ میاں شہباز شریف کو نظربندی میں محفوظ رکھا ہوا ہے تا کہ بھتیجی صاحب رج کے پارٹی توڑ لے پھر شہباز شریف کو باہر نکالا جائے گا اور جب شہباز نواز بیانیہ کھل کر سامنے آجائے گا تب شہباز شریف کی سیاست شروع ہو گی۔ یہ سیاستدان خود کہتے ہیں کہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا، آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دشمن آج دوست ہوتے ہیں وغیرہ۔ جب سیاست اتنی بے مروت، بے وفا منافق ہے تو پھر عوام کو بھی ان کے تمام رنگ کھل کر انجوائے کرنے کا حق حاصل ہے۔
حمزہ اور مریم کا سیاسی تجربہ میں کوئی موازنہ نہیں۔ جس زمانے میں مریم اپنے امی ابو کے ساتھ بمع شوہر بچے اور سسرجدہ شفٹ ہو گئی تھیں اس وقت فقط حمزہ شہباز پیچھے رہ گیا تھا۔ حمزہ شہباز نے کم عمری میں نہ صرف اتفاق فائونڈری کا بزنس سنبھالا بلکہ دور آمریت میں پارٹی کو بھی کاندھا دیا۔ مشرف سے ڈیل کے بعد بے نظیر بھٹو اور شریف برادران جب وطن لوٹے تو نواز شریف بھتیجے کی کارکردگی پر احسان مند اور خوش تھے البتہ کلثوم نواز بزنس کی صورتحال پر اندر سے نا خوش تھیں۔ لیکن اپنے بچوں کو سیاست سے دور رکھنے کی بات کیا کرتی تھیں۔ دوسری طرف شہباز شریف اور حمزہ کو بھی پارٹی کی جانشینی دینے پر راضی نہ تھیں۔ باپ بیٹے کو بے دخل رکھنے کے لئے گھر داماد کی بیوی یعنی بیٹی مریم کو پارٹی جانشین بنانے کا فیصلہ کر لیا اور میاں نواز شریف نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹی کو مسلط کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ نواز شریف کو حکمرانی کی تیسری باری ملی تو بھائی شہباز اس مرتبہ بھی وزیر اعلیٰ پنجاب بنے اور حمزہ سیاست میں مزید متحرک ہو گئے اور الیکشن جیت کر سیاست پر مہر لگا دی۔ جبکہ مریم اپنے ابو امی کی سفارشی بھرتی تھی۔ نہ الیکشن لڑا نہ تجربہ نہ اہلیت نہ قابلیت۔ حمزہ سے تقابل کیوں کر ہو سکتا ہے؟ مسلم لیگی دائیں بازو کی روایتی سوچ کی حامل جماعت مرد کے مقابلے میں عورت کی پیروی پسند نہیں کرتی۔ بے نظیر بھٹو نے اس جماعت کے ہاتھوں بہت تضحیک اٹھائی۔ آج مکافات عمل دیکھئے کہ اسی جماعت کی عورت مریم نوازکو بے نظیر والے حالات کا سامنا ہے۔
حمزہ کی رہائی پر مریم لندن لوٹ جانا چاہتی ہیں البتہ حکومت جانے نہیں دے رہی۔ حکومت نواز اور شہباز کے بیانیہ کا تماشہ دیکھنا چاہتی ہے۔ حمزہ بڑی سمارٹ گیم کھیلتا ہے۔ کلثوم نواز کی سیٹ پر جب الیکشن ہوا تو مریم کے انتخابی مہم چلانے پر حمزہ لندن چلا گیا۔ اب دیکھتے ہیں ایک ہی سٹیج پر دو بیانئے کیا رنگ دکھاتے ہیں۔ نواز شریف اور مریم ڈان لیکس سے آج تک فوج کے خلاف الطاف حسین سیزن ٹو سیریز پیش کر رہے ہیں جبکہ شہباز شریف اداروں سے ٹکرائو کے کبھی حامی نہیں رہے، اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بک میں شمار ہوتے ہیں۔ مریم کے تلخ اور گوالمنڈی کے لب و لہجہ نے ماحول مزید بگاڑ دیا ہے۔ ان کی سیاست نواز شریف کی خاندانی مجبوری ہے۔ جب جلانے کو کوئی کشتی باقی نہ رہے تو دل جلے نظریاتی بن جاتے ہیں۔ چوھدری نثار مریم کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے سے بغاوت کر گئے اور کہا نواز شہباز تک دوستی نبھائی آگے نسلوں کی جی حضوری نہیں کر سکتے۔ جانشینی بھی اہلیت و قابلیت کا تقاضہ کرتی ہے مگر الا ماشا اللہ جاہل پیری فقیری کی گدی نشینی کی طرح سیاسی گدیاں بھی جہالت کا شکار ہیں۔ مسلم لیگ نواز نہیں ہونی چاہئے تھی اگر ذاتی جماعت بنا ہی لی تو خاندانی جماعت نہ بنائی جاتی۔ جیوے بھٹو سے جان نہیں چھوٹ رہی اب جیوے نواز پروگرام شروع ہونے جا رہا ہے۔ بس عوام مرے۔
ہر دور حکمرانی میں بار بار عوام ہی مرے لیکن ان چند خاندانوں کے اثاثوں میں کمی نہیں آنی چاہئے۔ کرپشن کیسز سے قطع نظر نواز پارٹی کی سیاست پنجاب میں شہباز سیاست بن چکی ہے۔ مینار پاکستان جلسہ کے لئے لہوریوں کا ضمیر جگانے مریم گلی محلوں میں بٹ کڑائی کھاتی پھریں مگر حمزہ اور شہباز ووٹر گھروں میں بیٹھے رہے اور مینار پاکستان فضل الرحمان کے مریدوں نے بھرا۔ مریم "چھوٹی سی سرجری " کرانے کے بہانے ابو جی کے پاس جاناچاہتی ہیں تو جانے دیں۔ جب پورے کے پورے ابا جی چکمہ دے کر بھاگ گئے تو بیٹی کو بھی جانے دیں تا کہ حمزہ شہباز کھل کر کھیل سکیں۔ حکومت بھی سیاست کھیل رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کی دوغلی سیاست کو بے نقاب کرنا چاہتی ہے۔ نواز شہباز کے بیانیہ کا الٹراسائونڈ کرنا چاہتی ہے۔ شہباز اور نواز لورز کو ایکسپوز کرنا چاہتی ہے۔ دیکھیں اب کون " نو دو گیارہ " ہوتا ہے۔