سورہ ابراہیم میں فرمان الٰہی ہے اور انہوں نے (دولت و اقتدار کے نشہ میں بدمست ہو کر) اپنی طرف سے بڑی فریب کاریاں کیں جب کہ اللہ کے پاس ان کے ہر فریب کا توڑ تھا، اگرچہ ان کی مکّارانہ تدبیریں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی اکھڑ جائیں۔ جب سے سیاسی جماعتوں نے مذہبی کارڈ کا منافقانہ استعمال شروع کر رکھا ہے مذہب پر لکھتے حیا محسوس ہونے لگی ہے۔
سیاست نے گھر گھر کو نحوست زدہ بنا دیا ہے۔ لوگوں کے حقوق کے لیے لڑنے کے بجائے بہت سے رہنما سیاسی مقاصد کے لیے انسانی اقدار کے مخالف ایجنڈا سنبھالے ہوئے ہیں۔ بائیس برس ہو گئے سیاست اور روحانیت پر لکھتے اس سے پہلے کبھی اتنا گندہ ماحول نہیں دیکھا جو چند برسوں سے ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کارکنوں کی گالم گلوچ اور سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر غلاظت بھرے حملے۔ یہ ماحول چند برس پہلے تک نہ تھا۔ اب سیاست پر لکھنا خود کو غلاظت کی کیچڑ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنرل سیکرٹری سلیل شیٹی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ لوگوں کے حقوق کے لیے لڑنے کے بجائے بہت سے رہنما سیاسی مقاصد کے لیے انسانی اقدار کے مخالف ایجنڈا سنبھالے ہوئے ہیں۔ مذہب کو مذہبی جماعتیں ایکسپلائیٹ کریں تو سمجھ بھی آتی ہے کہ ان کی روٹی روزی کا مسئلہ ہے لیکن سیاست اور اقتدار کو طول دینے کے لئے مذہبی کارڈ کا سیاسی خطابات میں بے دریغ استعمال ناقابل ہضم ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو جو مذہب پر لکھتا بولتا ہے اس سے منافقت اور شعبدہ بازی کی بو آتی ہے۔
سیاست پہلے مخالفت کی حد تک تھی اب نفرت اور دشمنی و انتقام کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کالے جادو کی نحوست نے گھر گھر نحوست پہنچا دی ہے۔ منیر نیازی نے بہت پہلے کہا تھا مگر لگتا ہے آج کے ماحول پر کہا تھا کہ منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے۔ کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔
جانے پاک سرزمین پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ تخت نشین ہونے والا ہر حکمران ملک و قوم کو بحرانوں سے باہر نکالنے کے وعدے پر آتا ہے لیکن جاتے جاتے اس بدنصیب قوم کو مزید بحرانوں میں دھکیل جاتا ہے۔ تاریخ کا پہلا سبق یہ ہے کہ ہم کبھی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ جب سبق حاصل کرتے ہیں تو خود تاریخ بن چکے ہوتے ہیں۔ پاور کی بھوک سب سے خوفناک بھوک ہے۔
مذہب کارڈ کا سیاست میں استعمال ذوالفقار علی بھٹو جیسے عوامی اور ہردلعزیز لیڈر اور جنرل ضیا جیسے آمر تک کو بچا نہ سکا۔ پاکستان پہلے ہی ماضی میں سیاست اور اقتدار کے لیے مذہب کے استعمال کے انتہائی خطرناک نتائج بْھگت چکا ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعتیں اپنی سیاست کے لیے مذہب کارڈ کا استعمال کر رہی ہیں تو تحریکِ لبیک یا دیگرمذہبی سیاسی جماعتوں کے احتجاج کو اخلاقی اور قانونی اعتبار سے آئندہ کسی طور غلط قرار نہیں دیا جا سکے گا۔
پہلے روٹی کپڑا مکان کا فراڈ کیا گیا پھر نفاذ اسلام کا ڈرامہ کھیلا گیا پھر قرض اتارو ملک سنوارو نے بیوقوف بنایا اور اب تو ڈھٹائی سے عاشق رسولؐ ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے۔ سچ پوچھیں تو اب مذہب روحانیت پر لکھتے حجاب آتا ہے۔ دل چاہتا ہے جو ٹوٹا پھوٹا عمل ہو سکے کر کے خاموشی سے مر جائیں اور رب ہمارا بھرم رکھ لے۔ آمین