جس میں ہمارا بچپن گزرا۔ وہ گلیاں، محلے، بازار، جہاں محبت، پیار، اتفاق، بھائی چارہ، ایک دوسرے کا خیال، احساس، شرم وحیا، پاسداری، لحاظ وضع داری، ادب، احترام، عزت، سکون، آزادی، سادگی، آسودگی ہوا کرتی تھی۔ آہ! ۔۔ کہاں گیا وہ ہمارا پاکستان جس کی گود میں ماں کی آغوش کا احساس ہوتا تھا۔ امن تھا، سکون تھا، تحفظ تھا۔ نہ کوئی ڈر نہ خوف۔ موت سے مراد بڑھاپا تھا۔ ناگہانی موت کی خبریں شاذو نادر سننے میں آتی تھیں۔ ہر گھر میں دادا اور دادی ہوا کرتے تھے جو نوے یا سو سال کی زندگی گزارکر فوت ہوتے تھے۔ خاندانوں سے گھر بھرے ہوتے تھے۔ ایک کمانے والا اور کئی کھانے والے ہوتے تھے اور سب کو چیزیں ملتی تھیں۔
اس پرانے پاکستان میں ایک ہی محلے میں رہتے برسوں بیت جاتے مگر کبھی کسی مذہبی تفریق کا پتہ نہ چل سکا۔ ملازموں کے ساتھ گھر کے افراد جیسا سلوک ہوتا۔ کوئی چاچا کہلاتا، کوئی خالہ اور کوئی ماسی، پرانے پاکستان میں کسی کا پرانا ملازم فوت ہو جاتا تو گھر والے اس کی جدائی میں رو رو کر ہلکان ہو جاتے جیسے کوئی حقیقی رشتہ دار بچھڑ گیا ہو۔ ایک گاؤں یا محلے میں رہنے والے رنگ و نسل مذہب ذات پات سے بالا تر اپنے دل اور گھر کے دروازے ایک دوسرے کے لئے کھلے رکھتے۔
محرم کا مہینہ آتا توہر گھر میں احترام دیکھا جاتا۔ یوم عاشور کے موقع پر ٹھنڈے مشروبات اور پانی کی سبیلیں لگائی جاتیں۔ نان حلیم اور چنوں کے چاول پکائے جاتے اور بلا مسلک ایک دوسرے کے گھروں میں نیاز بھیجی جاتی اور قبول کی جاتی۔ جن گھروں میں مجالس کا اہتمام کیا جاتا، بڑے ادب سے واقعہ کربلا سننے پہنچ جاتے۔ نہ کوئی جھگڑا دیکھا نہ فرقہ بندی کے تنازعات دیکھے۔ شب عاشورکو ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ جاتے اور بڑوں کے ساتھ شام غریباں سنا کرتے۔ سلام آخر سن کر سر گھٹنوں میں دبا کر ہچکیوں سے رویا کرتے۔
سکول لائف سے کالج پہنچ گئے مگر علم ہی نہ ہو سکا کہ ہم شیعہ ہیں یاسنی، وہابی، بریلوی، نقشبندی یادیو بندی وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام نام استعمال نہیں کئے جاتے تھے، بس اتنا علم تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور نماز روزہ شرم و حیاء کی، دین اسلام کی تعلیمات کو سمجھنا اور عمل کرنا ہم پر فرض ہے۔ یوم ولادت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا موقع آتا یا کسی معتبر بزرگان دین کی محافل عرس ہوتیں، محلے میں دیگیں پکا کرتیں۔ لنگر کا عام اہتمام کیا جاتا۔ پرانے پاکستان میں شاید ہی کوئی غریب کبھی بھوکا سویا تھا۔ شب برات ہوتی تو چھت پر چڑھ کر چراغاں کیا کرتے۔
شب بھر محفل سماں اور نعت خوانی، قرآن خوانی، محفل درود پاک کی رونقیں محلے داروں میں میل ملاقات اور پیار محبت کا سبب ہوتیں۔ یوم آزادی پاکستان کا موقع آتا تو بڑے پرچم اور چھوٹی جھنڈیوں سے گھروں کی سجاوٹ میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کی جاتی۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کا احترام والد سے زیادہ کرنے کا سبق دیا جاتا۔ قومی ترانے زبانی یاد ہوتے۔ جذبہ حب الوطنی کا جوش و ولولہ لہو میں ٹھاٹھیں مارتا محسوس ہوتا۔ کرائمز بہت کم تھے۔ چوری کے واقعات شازو نادر سننے میں آتے اور اکثر چور اہل محلہ کے غضب کا نشانہ بن جاتا۔ الغرض قتل و غارت گری، چوری ڈاکے، اسلحہ بارود غیر معمولی واقعات تھے۔
جس پاکستان میں ہم نے بے فکر، بے خوف، بے پروا زندگی گزاری ہے، وہ پرانا پاکستان ہے۔ آج نیا پاکستان ہے جس میں نئے نئے شعبدہ باز دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر روز نت نئے تماشے ہوتے ہیں۔ چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں رہی، عورتوں کا احترام جاتا رہا۔ لیڈران بھی عامیانہ زبان استعمال کرنے لگے۔ غیر مہذب اور غیر اخلاقی انداز تکلم اورکردارباعث شرمندگی ہے۔ دینی اقدار کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ نظریہ پاکستان کو دقیانوسی سوچ قرار دیا جاتاہے۔
پرانے پاکستان کے خیالات و نظریات کی توہین کی جاتی ہے۔ پرانے لوگوں کے تجربات کو فار گرانٹڈ لیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں میں احساس کمتری کا سرطان اس قدر پھیل رہاہے کہ اگلی نسلیں پاکستان سے فرار چاہتی ہیں۔ پرانا پاکستان کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ نئے نظریات میں ایک ایسا پاکستان پیش کیا جارہا ہے جس میں اپنے چہروں کی شناخت بھی مشکل ہوگئی ہے۔ یہ ہے نیا پاکستان جب بے شعور لونڈوں اور میرا جسم میری مرضی کی دھما چوکڑی سے نئے پاکستان کی بنیاد پڑی اور خلق خدا کی چیخیں نکل گئیں۔ قائداعظم کا پرانا پاکستان نوحہ کناں ہے۔