"مجھے کیوں نکالا" پر نواز شریف کا مذاق بن گیا اب عمران خان کہتے پھر رہے ہیں "تجھے کیوں نکالا"۔ نواز شریف کو لندن بھیج کر جیسے پچھتا رہے ہوں۔ نواز شریف نے بھی کہہ دیا ہے" پنجاب نہیں جائوں گا"۔ پنجاب نہیں جائوں گی فلم انہی سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی شائد۔ عمران خان پر پارٹی کا دبائو اور ناراضی بجا ہے کہ 24 سال سے سُن سُن کر کان سُن ہو گئے کہ نواز شریف چور ہے پھر جب اختیار اور موقع ملا تو چور کو نکال باہر کیا؟ کیوں؟ اب اپنی جماعت اور سادہ کارکنوں کو کیا جواب دیں کہ ان کی میڈیکل ٹیم نالائق ہے یا نواز شریف ان کی آشیر باد سے لندن بھیجے گئے؟
پاکستان میں حکومتی میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کو بیماری کی مصدقہ تشخیص کی اور ہمدردی کی بنیاد پر جیل اور پھر ملک سے نکلوا دیا۔ اب اگر ایک دو تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں کہ موصوف لندن کی سڑکوں اور ریستورانوں میں گھوم پھر رہے ہیں تو اَپ سیٹ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا معلوم نہیں کہ مریض کو تازہ ہوا اور ماحول کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں اب جلنا کڑھنا یا حسد مناسب نہیں۔ حکومت نے اب بیانیہ بدل لیا ہے کہ نواز شریف نے جھوٹ بولا وہ تو بالکل تندرست ہیں۔ جھوٹ تو حکومتی میڈیکل ٹیم نے بھی بولا تھا کہ نواز شریف کو خطرناک امراض لاحق ہیں؟ اب کہنا کہ نواز شریف جھوٹ بول کر گئے تو حکومت کا یہ بیانیہ اپنی نااہلیت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
بجائے اس کے اس نااہلی پر حکومتی میڈیکل ٹیم کو فوری مستعفی کر دیا جاتا اس میں سے ایک ڈاکٹر کو حکومتی عہدہ سے نواز دیا گیا؟ نواز شریف ریاستی اور حکومتی اداروں کی آشیرباد کے بغیر جیل جا سکتے تھے نہ نکل سکتے تھے کجا لندن چلے جاتے؟ تسلی رکھیں نواز شریف اب پاکستان نہیں آئیں گے یہ معاہدہ ہے۔ الیکشن ہوئے تب بھی نہیں آئیں گے البتہ ان کی جماعت جیت جاتی ہے پھر وزارت اعظمیٰ کے لئے شاید تشریف لے آئیں بشرط زندگی۔ تمام سیاسی رہنما ستر سال سے تجاوز کر چکے ہیں مگر کرسی کی ہوس کسی کو بیمار ہونے دیتی ہے نہ بوڑھا۔ امریکہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مد مقابل جو بائڈن بھی سترے بہترے گئے ہیں مگر صدارتی کرسی کے لئے مقابلہ سخت ہے۔
جو بائڈن بیچارے شریف ٹھنڈے ماٹھے مڈل کلاس بندے ہیں۔ نواز شریف جیسے سیاست کو قبول ہیں لیکن شریف بندے کی سیاست اب پوری دنیا کو قبول نہیں۔ امریکہ میں بھی بزنس مین ٹرمپ دوسرا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ پہلا انتخاب روس کی مدد سے دھاندلی سے جیت گئے دوسری مرتبہ بھی دھاندلی کا عزم رکھے ہوئے ہیں۔ شکست کے لئے قطعی تیار نہیں۔ دولت مند طبقات اور مذہبی مافیاز بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ڈیموکریٹک کا دل ہے کاش پاکستان سے سیاسی نظام اُدھار مانگ سکتے اور تیسری مرتبہ بھی باراک اوباما کو صدر بنا سکتے۔ مقبول ترین لیڈر بھی تیسری مرتبہ صدر نہیں بن سکتا مگر پاکستان میں نواز شریف چوتھی مرتبہ اقتدار میں آنے کی آرزو میں ورزش پر توجہ دے رہے ہیں۔ حکومت موصوف کی دو تصویر وں سے گھبرا گئی جبکہ ہمیں تو پاکستان میں الیکشن ہی مشکوک نظر آرہے ہیں۔ آرمی چیف اور عمران خان اپنی مدت پوری کر لیں پھر کچھ وکھرا ہی ہونے کا امکان ہے۔
نواز شریف کی خواہش ہے کہ زندگی کا بھروسہ نہیں ایک بار اپنی صاحبزادی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھا جائیں۔ زرداری کی بھی یہی تمنا ہے کہ صاحبزادے کے سر پر شادی کا سہرا بھلے دیکھیں یا نہ بس ایک مرتبہ حکمرانی کا تاج ضرور پہنا جائیں۔ دونوں بزرگوار گدی نشینوں کو مسند اقتدار میں بٹھانے کی ہوس میں تندرست رہنا چاہتے ہیں ورنہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ نواز زرداری بیمار یا بوڑھے نہیں ہوئے۔ داد دیں ان برین واش عاشقوں کو جو اگلی نسلوں کی خوشامد جی حضوری اور مٹھی چاپی میں بھی سربسجود تیار ہیں۔ لگتا ہے ان دونوں سیاسی جماعتوں میں مائوں نے کوئی مائی کا لال جنا ہی نہیں جو نواز شریف اور بے نظیر کی پارٹی کا وزیر اعظم بننے کا اہل ہو سکتا؟ تجربہ کار انکل آنٹیاں سب نا اہل اور یہ گدی نشین اولاد بھی۔
وزیر اعظم پاکستان نے عمران خان کو موقع دیا فری ہینڈ دیا، ریاستی ادارے اور اپوزیشن بھی حکومت کے مدت پوری کرنے تک ساتھ نبھا رہے ہیں پھر ایسا کیا ہو گیا کہ نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا؟ حکومت اپنی کارکردگی دیکھے نواز شریف کی تصویریں نہ دیکھے۔ نواز شریف سب کی ملی بھگت سے نکالے گئے اور اب معصوم بن کر پوچھا جاتا ہے کہ " کیوں نکالے گئے؟