اللہ کی کتاب میں ہر موقع، تکلیف، پریشانی، مشکل اور آزمائش کے لیے دعائیں عطا فرما دی گئی ہیں۔ احادیث مبارکہ میں نبی آخر الزماں ﷺ نے بھی قرآن پاک میں مذکورہ دعائیں ہی تلقین فرمائی ہیں۔ جب مسلمانوں کے پاس قرآن و احادیث کی ان گنت دعائیں و مناجات موجود ہیں تو پھر کیا کسی اور وظیفہ کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ صحابہ کرام، اہل بیت رسول اللہ اور بعد میں آنے والے بزرگانِ دین بھی اللہ و رسولﷺ کی بتائی ہوئی دعائیں ہی پڑھا کرتے تھے۔ اللہ و رسولﷺ کے علم و معرفت سے ہٹ کر کوئی وظیفہ یا مناجات تصوف نہیں۔ تصوف تزکیۂ نفس اور اللہ سے تعلق کا فارسی نام ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ سابقہ زمانے کے تصوف میں سیدھے راستے سے انحراف نہیں کیا جاتا تھا، اور نہ ہی اس کا قابلِ ذکر خطرہ تھا بلکہ تب تصوف سے بعض اوقات زہد، تقوی، پرہیز گاری، اور ناز و نعم سے دوری مراد لیا جاتا تھا۔
امام احمد نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ "رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ ایک سیدھا خط کھینچا، اور فرمایا، یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے۔ پھر اس خط کے دائیں اور بائیں خطوط کھینچے، اور فرمایا، یہ مختلف راستے ہیں، اور ان میں ہر راستے کی طرف دعوت دینے کیلئے شیطان بیٹھا ہوا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی، "بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے، چنانچہ تم اسی کی پیروی کرو، اور کسی اور راستے کی پیروی مت کرو، ورنہ تم اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔" اس حدیث کو البانی نے التوسل، (ص / 125) میں صحیح قرار دیا ہے۔ اسی طرح ابو داؤد: (4607)، ترمذی: (2676)، اور ابن ماجہ: (44) میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، "تم میں سے جو بھی میرے بعد زندہ رہے گا تو وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا، پس تم میری، اور خلفائے راشدینؓ کی سنت پر کار بند رہنا، اسے انتہائی مضبوطی سے تھامنا، اور اپنے آپ کو خود ساختہ امور سے بچانا کیونکہ دین میں ہر خود ساختہ بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔" اسے البانی نے ابو داؤد (3851)میں صحیح قرار دیا ہے۔ تصوف کی بنیاد احسان اور تزکیۂ نفس ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن پاک کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور اللہ کے آخری رسولﷺ کے ارشادات مبارک میں بھی اللہ کا کلام بولتا ہے۔ اس کے علاوہ اولیا اللہ سے منسوب کتب اور ان میں مذکور وظائف، دعائیں اور درود پاک کی کوئی سند نہیں، اگر کوئی انہیں پڑھتا ہے اس کی ذاتی رائے ہے مگر دین فقط قرآن اور ارشادات نبی اقدسﷺ ہے۔ جس کا خالق سے تعلق جڑ گیا اس نے معرفت کی حقیقت پا لی۔ تصوف کے نام پر پیری چمکا کر دولت شہرت کمانے والے شعبدہ بازوں کو حق شناس دور سے پہچان جاتے ہیں۔ رب شہ رگ سے بھی قریب ہے، سر جھکایا ملاقات ہو گئی۔ اولیا اللہ فرماتے تھے کہ "ہر طرف سے دل کو ہٹا کر صرف اللہ کی جانب اپنے دل کی لو لگا لینا یہ تصوف ہے۔" دور حاضر کے زیادہ تر پیروں اور پیرنیوں کے عیش و عشرت، دنیا داری، مال و دولت، قیمتی گاڑیاں اور بنگلے دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ ان لوگوں کے دل فقط اللہ کی جانب ہیں؟ تصوف کی آڑ میں ہوسِ نفس کا جو بازار گرم ہے اس کو فقط مومن کی نگاہ ہی بھانپ سکتی ہے۔ ضعیف الاعتقاد کو ہر چیز میں مرشد کی کرامت دکھائی دیتی ہے۔ جب دلوں پر مہر لگ جائے پھر کوئی بھی ہوش میں نہیں لا سکتا۔
برین واشنگ سے رب کی پناہ مانگی جائے۔ بڑے بڑے پڑھے لکھوں کی عقل بند ہو جاتی ہے۔ سیدھے سادے اسلام کی روحانیت کے نام پر صورت بگاڑ دی گئی ہے۔ اللہ سے براہِ راست ہم کلام ہونا اتنا مشکل ہوتا تو رب کیوں کہتا کہ "مجھے پکارو، مجھ سے بات کرو، میں تمہاری شہ رگ سے بھی قریب تر ہوں۔" در حقیقت، لوگ بابوں اور مائیوں کے پاس دنیاوی مسائل کا شارٹ کٹ ڈھونڈنے جاتے ہیں، حالانکہ اللہ سے ہم کلام ہونے کے لیے فقط دل سے یا اللہ، پکارنا کافی ہے۔ وہ جواب دیتا ہے "بول میرے محبوب بندے کیا حاجت ہے؟ " کبھی دل سے پکار کر دیکھو، تم اپنے مرشد خود ہو!!!