تمام عمر زرمبادلہ بھیجنے والے آج جب بیروزگار ہو کر وطن لوٹ گئے تو حالات نے صاف جواب دے دیا کہ بھائی ہمیں تمہارا زرمبادلہ پیارا ہے تم نہیں۔ دولتمند دہری شہریت والوں کے لئے وزیراعظم ہائوس بھی کھلا ہے اور زرمبادلہ بھیجنے والے غریب مزدور کو آج کوئی بھیک دینے کو بھی تیار نہیں۔ کنٹینر والے عمران خان فرمایا کرتے تھے۔
"ایسے لوگ جو دوہری شہریت اور بیرون ملک اثاثے رکھتے ہیں، وہ پاکستان کے مفادات کا صحیح تحفظ نہیں کر سکتے"۔ ہم خان صاحب کے اس بیان سے کلی طور پر متفق ہیں لیکن اصل اوورسیز پاکستانی کون ہیں؟ یہ وہ سفید پوش پاکستانی ہیں جو کسی نہ کسی طرح باہر چلے گئے۔ ماں باپ بہن بھائی گھر دوست احباب بچپن محبتیں یادیں سب وطن میں چھوڑ گئے اور جوانی دیارغیر محنت مزدوری کرتے گزار دی۔ تھوڑی کھائی زیادہ وطن بھیج دی پھر جب بال بچے دار ہوئے آدھی انہیں کھلا دی اور آدھی وطن بھیج دی۔ اولاد جوان ہوئی تو انہیں ڈاکٹر انجینئر بنانے کا خواب دیکھ لیا۔ تعلیم مہنگی ہونے کے سبب بیرون ملک یہ خواب پورا نہ ہو سکنے کے اندیشے سے بچوں کو وطن عزیز بھیجنے کا سوچا لیکن پتہ چلا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جس کو تم اپنا ملک کہتے تھے، تھوڑی کھاتے تھے اور زیادہ اس ملک کو بھیجتے تھے۔ تم اب تارکین وطن کہلانے لگے ہو۔ اس ملک کا نظام تمہارے بچوں کے ساتھ بھی سوتیلا پن کرے گا۔
تمہارے بچوں کے ساتھ اوورسیز یا فارن سٹوڈنٹ کا جرم لگا دیا جائے گا۔ پاکستان کے سرکاری کالجوں میں بطور فارن سٹوڈنٹ داخلے کے لئے بہت ہائی میرٹ رکھا گیا ہے اور مقامی سٹوڈنٹ کا میرٹ اور فیس کم رکھی گئی ہے۔ فارن سٹوڈنٹس کوٹہ بھی پندرہ فیصد ہے۔ تم جیسے مزدور مڈل کلاس تارکین وطن بچوں کا خواب پورا کرنا افورڈ کر سکو گے؟ اے تارکین وطن مزدور تیرے نام کے ساتھ چونکہ اوورسیز لگ چکا ہے لہٰذا وطن عزیز کو تیرے فنڈز اور تیرے زرمبادلہ کی ضرورت ہے تیرے بچوں کی نہیں۔ اگر ڈالروں میں مہنگی فیسیں بھر سکتا ہے تو نجی ادارے منہ کھولے تیرے منتظر ہیں۔ تیری ہی فیسوں سے یہ نجی تعلیمی ادارے چل رہے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی دن رات محنت کرتے ہیں اور جن ملکوں میں رہتے ہیں وہاں کی حکومتوں کو بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں اور خالص رزقِ حلال کما کر اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالتے ہیں اس کے بعد جو کچھ بچتا ہے اپنے عزیزواقارب کو پاکستان بھیج کر دیتے ہیں۔ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے اگر وطن میں کوئی جائیداد بنا لیتے ہیں تو اس پر لینڈ مافیا کا قبضہ ہو جاتا ہے۔
یہ لینڈ مافیا اس قدر مضبوط ہے کہ اس کے آگے حکومت، مقننہ انتظامیہ سب بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی کسی حکومت کو یہ توفیق حاصل نہ ہوئی کہ وہ اس لاقانونیت کو روک سکے اور نہ ہی پاکستان کی عدلیہ ہی کوئی قابلِ ذکر کردار ادا کر سکی۔ آمریت دور، زرداری دور، نواز دور عمران دور سب نے اوورسیز پاکستانیوں سے منہ کھول کر زرمبادلہ وصول کیا فنڈز مانگے لیکن یکطرفہ محبت اور قربانی کا یہ کھیل آخر کب تک چلے گا؟ اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں سا سلوک کیا جاتا ہے۔ ایک ذاتی موبائل فون پر بھی چھوٹ نہیں۔ بھاری سرکاری بھتہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ فون کے دفاتر میں خواری الگ سے، اس اذیت سے بچنے کے لئے نیا فون خریدنا پڑتا ہے مگر بیروزگار مزدور جو بمشکل تین گناہ مہنگا ٹکٹ خرید کر وطن پہنچا ہے وہ اس طرح کے اضافی ٹیکس ادا کر سکتا ہے اور نہ نیا فون خریدنے کی حیثیت میں رہا ہے۔ اوورسیز کو ریڑھ کی ہڈی بولا جاتا ہے لیکن ملک پلٹ پاکستانیوں کے لئے کیا سہولیات اور آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں؟ ان کے بچوں کو بطور فارن سٹوڈنٹس ٹریٹ کیا جاتا ہے لاکھوں روپوں میں فیسیں بٹوری جاتی ہیں۔ اوورسیز کو ہر مقام پر لوٹا جاتا ہے۔ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے لئے فارن سٹوڈنٹس کے میرٹ اور فیس اور مقامی سٹوڈنٹس کے لئے میرٹ اور فیس میں کھلا تضاد ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کو بیرون ملک بنیادی سہولیات اور پانی میسر ہے مگر ڈیمز کی تعمیر کے لئے فنڈز پاکستان میں بسنے والوں کے لئے دئیے جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان پر لازم ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے لئے آسانیاں فراہم کرے۔ کورونا وائرس نے لاکھوں پاکستانیوں کو بیروزگار کر دیا ہے۔ زرمبادلہ بھیجنے والے مزدور پائی پائی کو محتاج ہو گئے ہیں۔ عمران سرکار کے پچاس لاکھ گھروں میں ان وطن پلٹ بے گھر اور جاب لیس پاکستانیوں کے لئے بھی کوٹہ تو ہو گا؟ اوورسیز پاکستانی امیر تصور کئے جاتے ہیں جیسے درختوں پر پتے نہیں ڈالر ریال اور پائونڈ لگتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کا اہم سہارا اوورسیز پاکستانیوں کا زرمبادلہ ہے لیکن آج وہ خود در بدر ہو گئے ہیں۔ سب سے زیادہ محب وطن یہ اوورسیز پاکستانی ہیں۔
کرونا کے بحران میں بھی اوورسیز پاکستانیوں نے ڈالروں کے ڈھیر لگا دئیے۔ مالی سال 2020ء میں بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے 23 ارب ڈالر بھیجے۔ سب سے زیادہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی مزدور 5 ارب ڈالر سے زائد بھیج کر دیگر پاکستانیوں سے بازی لے گئے اور سعودی عرب خلیجی ریاستوں سے ہی سب سے زیادہ بیروزگار پاکستانی ملک لوٹ رہے ہیں۔ چھ ماہ سے کرونا کرائسس میں پھنسے ہوئے مصیبت زدہ پاکستانیوں کے ساتھ جو سلوک حکومت پاکستان نے کیا ہے۔ اس نے انہیں تبدیلی سے بدظن کر دیا ہے۔ دوہری شہریت والے مالدار اوورسیز پاکستانی مزدوروں کی تکالیف کو محسوس نہیں کر سکتے۔ مزدور تب تک پیارا ہے جب تک باہر بیٹھا زرمبادلہ اور فنڈز بھیجتا رہے۔