Friday, 27 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Tsunami Aik Azab

Tsunami Aik Azab

تحریک انصاف کا، سونامی، نام رکھنے والے نے بھی کیاکمال کانام رکھا، سونامی کے جس سمندرعذاب اورنہرکذاب میں پہلے سادہ لوح عوام کوغوطے دیئے جاتے تھے آج عذاب وکذاب کے اسی نہروسمندرمیں خودپی ٹی آئی آئی والے بھی غوطوں پرغوطے لگانے پرمجبورہیں۔ یہ سونامی ہی توہے جس نے پارٹی چیئرمین سمیت سب کھلاڑیوں کی نیندیں اڑاکررکھ دی ہیں۔

قیدی نمبراٹھ سوچارتواسی سونامی میں بہہ کراڈیالہ جیل پہنچے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ سونامی کی رفتاراگراسی طرح جاری رہی تووزیراعلیٰ علی امین گنڈاپورسمیت کئی اورکھلاڑی بھی اڈیالہ میں اپنے کپتان کے پڑوسی بن جائیں گے۔ اڈیالہ میں قیدعمران خان کی گرفتاری پرتحریک انصاف کے بہت سارے نادان کارکن سیاسی مخالفین کوموردالزام ٹھہراکربرابھلاکہہ رہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ کپتان کے قیدی نمبراٹھ سوچاربننے میں جتناہاتھ اورکردارخودکپتان اوران کے سینئرکھلاڑیوں کاہے اتناکسی اورکانہیں۔ اسی لئے توکہاجاتاہے کہ پی ٹی آئی کوباہرسے کسی دشمن اورمخالف کی ضرورت نہیں۔

ویسے خان کے دل میں جیل سے نکلناہے یانہیں پرخان کے جان نثاروں کے دل میں خان کاجیل سے باہرنکلناباالکل بھی نہیں۔ تب ہی تویہ چلتے پھرتے زبان سے آگ برسارہے ہیں۔ ریڈلائن کاباجا لیکرپہلے یہ کہتے رہے کہ کوئی کپتان کوہاتھ لگاکردکھائے، جب ہاتھ لگاتوپھرکہا۔ ہمارے لیڈرکوکوئی پکڑکردکھائیں اورجب خان کوپکڑلیاگیاتوپھرکہاکوئی ہمارے صاحب کوجیل میں ڈال کردکھائیں۔ اب جلسوں اورجلوسوں میں کہاجارہاہے کہ کوئی ہمارے خان کوپندرہ دن سے زیادہ جیل میں رکھ کردکھائیں۔ وہی پرانی بڑھکیں، وہی روایتی وعادتی گالم گلوچ۔ معلوم نہیں یہ مخلوق آخرچاہتی کیاہے؟ ان کی انہی حرکات وسکنات کودیکھ کراکثرلوگوں کوچادروالے میراثی کاوہ واقعہ یادآنے لگتاہے۔

کہتے ہیں ایک میراثی نے سردیوں کیلئے کہیں نئی گرم چادر لی اور کندھے پہ رکھ کر گاؤں کی چوپال میں جا بیٹھا۔ گاؤں کے نمبردار نے چادر دیکھی تو اپنے بیٹے کی بارات میں استعمال کرنے کے لئے مانگ لی۔ میراثی نے خوشی خوشی سے چادرنمبردارکودے دی۔ نمبردارکے بیٹے کی بارات گاؤں سے نکلی تو چادر دلہے کے کندھے پر تھی۔ بارات کو دیکھ کہ ایک شخص نے پوچھابارات کس کی ہے؟ میراثی جھٹ سے بولا۔ بارات نمبردارکی ہے پرچادر میری ہے۔ چودھری کے لوگوں نے میراثی کی دھلائی کر دی کہ یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی؟ بارات تھوڑی اور آگے گئی تو سامنے آتے ایک اور شخص نے پوچھابارات کس کی ہے؟

میراثی جلدی سے بولابارات نمبردارکی ہے اورچادر بھی انہی کی ہے۔ ایک دفعہ پھر پھینٹی پڑی کہ تو نے تو اس طرح بول کر لوگوں کو چادر کے بارے میں جان بوجھ کر شک میں ڈال دیا۔ اب جو تیسری مرتبہ راستے میں پھر کسی نے پوچھا کہ اتنی شاندار بارات کس کی ہے؟ تو میراثی نے پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑا شاندار جواب دیاکہ بارات تو نمبرداروں کی ہے لیکن چادر کامجھے بالکل بھی نہیں پتہ کہ کن کی ہے۔

میراثی کو پھر مار پڑی کہ اس معاملے میں آئندہ منہ کھولنے کی ضرورت نہیں۔ بارات پھر چل پڑی کچھ دور جا کے ایک بزرگ کھڑے تھے۔ انہوں نے بھی پوچھ ہی لیاکہ بارات کس کی ہے؟ میراثی نے سسکتے ہوئے بولانہ مجھے بارات کاپتہ ہے کہ کس کی ہے اورنہ ہی چادرکا۔ لگتاہے اس میراثی کی طرح کپتان کے یہ کھلاڑی بھی عادت سے کچھ زیادہ ہی مجبورہیں۔ جس طرح کے حالات سے یہ گزرے ان حالات کاتقاضاتویہ تھاکہ یہ اپنی زبانیں بندرکھتے مگرافسوس یہ تواس میراثی سے بھی دونہیں پورے سوقدم آگے نکل رہے ہیں۔ سیاسی معاملات دھونس، دھمکیوں اورگالم گلوچ سے حل نہیں ہوتے۔

سیاست میں فقط گالیاں اوردھمکیاں نہیں دی جاتیں بلکہ اپنی سنانے کے ساتھ دوسروں کی بھی سننی اورماننی پڑتی ہے پھراگرپاس پورے ایک صوبے کی حکومت بھی ہوتوایسے میں ذمہ داریاں ڈبل سے بھی ٹرپل ہوجایاکرتی ہیں۔ ہم توپڑھتے اورسنتے تھے کہ وزیراعلیٰ کسی ایک پارٹی یاگروپ کانہیں ہوتابلکہ وزیراعظم کی طرح وزیراعلیٰ بھی سب کاہوتاہے۔ اے این پی کے دورحکومت میں جب امیرحیدرخان ہوتی خیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ تھے یاردوست مذاقاًکہاکرتے تھے کہ لوگوں کاوزیراعلی ہوتاہے اورہماراہوتی ہے۔ یقین جانیں وہ ہوتی اس، ہوتا، والے سے ہزارنہیں بلکہ لاکھ درجے بہترتھے۔

گفتگومیں نرمی، الفاظ میں مٹھاس اورشخصیت میں عاجزی کے ساتھ عوام اورصوبے کے لئے کچھ کرنے کاجذبہ بھی وہ ساتھ لائے تھے۔ بلاکسی شک وشبہ کے ہوتی نے اپنے دورمیں کئی تاریخی اورریکارڈکام کئے۔ وہ کبھی صرف عوامی نیشنل پارٹی کے وزیراعلیٰ بن کرآتش فشاں نہیں بنے۔ آج خیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ صرف پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ بن کراپنے ساتھ کپتان کے پاؤں پربھی کلہاڑی ماررہے ہیں۔ ایک صوبے کی حکومت یہ کوئی معمولی شے نہیں۔

پی ٹی آئی والے چاہتے تواس حکومت سے اپنے بندراستے کھولنے کے ساتھ اوربھی بہت کچھ حاصل کرسکتے تھے۔ جس طرح ماضی قریب میں دوصوبوں کے اندربنی بنائی حکومتیں ختم کرکے غلطی کی گئی تھی اسی طرح خیبرپختونخوامیں ایک بارپھراپنی حکومت اورطاقت کوجان بوجھ کرضائع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جیسے کپتان ہیں ویسے ہی تکبر، غرور، ضد، انااورہٹ دھرمی سے لیس کھلاڑی انہیں ملے ہیں۔ موقع، مناسبت اورحالات کوکوئی نہیں دیکھتا۔ سب منہ سے آگ پھینک رہے ہیں۔ ایک دوبھی اگرآگ پھینکنے کے بجائے آگ بجھانے اورمعاملات سلجھانے والے ہوتے توپی ٹی آئی والے آج دربدرنہ ہوتے۔

سونامی نے پہلے ملک اورقوم کابیڑہ پارکیا، اب سونامی کپتان اوراس کے کھلاڑیوں کابیڑہ پارکرنے میں لگاہواہے۔ کپتان اورکھلاڑی اگراسی راستے کے مسافررہے توپھران کی زبانوں سے آگ نکلنے کے ساتھ قیدوبند، پکڑدھکڑاورلاٹھی چارج سمیت دیگربلائیں وادائیں بھی ان کااسی طرح پیچھاکریں گی۔ سونامی کے ہوتے ہوئے یہ لاکھ بھی چاہیں تب بھی یہ حالات کی بدبختی اوراپنی بدقسمتی سے جان چھڑانہیں پائیں گے۔ اس لئے کپتان اورکھلاڑیوں کوسیاسی مخالفین سے پہلے اس، سونامی، سے جان چھڑانی چاہئیے جس سونامی نے کپتان اورکھلاڑیوں کواس اندھیرے تک پہنچادیاہے۔