ایک مغربی مثال ہے کہ کوئی انسان تب تک اپنی دھرتی نہیں چھوڑتا جب تک وہ زمین شارک کا جبڑا نہ بن جائے۔
عام طور سے ہجرت کرنے والوں یا پناہ گزینوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ مگر شمالی امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وغیرہ پناہ گزینوں نے ہی آباد کیے۔
اب انھی پناہ گزینوں کی نسلیں نئے پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے دیواریں اونچی کر رہی ہیں۔ حالانکہ نئے پناہ گزین بھی اپنے ساتھ وہی خواب اور صلاحیتیں لے کر آتے ہیں جو موجودہ امریکیوں یا آسٹریلینز کے پرکھے ساتھ لائے تھے۔
جب انھی پرکھوں کے وارث نئے آنے والوں کو جرائم پیشہ اور دھرتی پر بوجھ کہتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ ہزاروں برس سے انھی دھرتیوں کے اصل باشندے تین چار سو برس پہلے بن بلائے مہمان کے طور پر تشریف لے جانے والے موجودہ سفید فاموں کے بزرگوں کو بھی جرائم پیشہ اور دھرتی پر بوجھ سمجھتے تھے۔
کسی حد تک اصل باشندوں کا یہ تجزیہ درست بھی تھا۔ کیونکہ غاصب اجنبی پناہ گزین بن کے نہیں بلکہ فاتح کے روپ میں آئے۔ انھوں نے چوری اور سینہ زوری کے ساتھ ساتھ اصل باشندوں کی نسل کشی بھی کی۔ اب تو کینیڈا جیسے فراخ دل ملک کے دروازے بھی تازہ آنے والوں پر تنگ ہو رہے ہیں۔
نئے قانون کے تحت اگر کوئی تارکِ وطن امریکی سرحد سے کینیڈا میں بنا سفری دستاویزات کے داخل ہوا تو وہ پناہ کی درخواست دینے کا اہل نہیں ہوگا بلکہ اسے واپس امریکا دھکیل دیا جائے گا۔
اسی طرح امریکا نے میکسیکو سے ملنے والی سرحد کے دوسری جانب کھڑے ہجوم کو بھی جتا دیا ہے کہ اگر قانونی اجازت نامہ نہیں ہے تو آپ اندر نہیں آ سکتے۔ گذشتہ ایک برس میں امریکا میکسیکو سرحد چوری چھپے عبور کرنے کی کوشش میں ساڑھے آٹھ سو انسان ہلاک ہو گئے۔
برطانیہ جو ایک صدی پہلے اس فخر میں جی رہا تھا کہ اس کی سلطنت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ اس نے سیان پتی دکھاتے ہوئے آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور شمالی امریکا کے کارنر پلاٹ یورپ کے گورے پناہ گزینوں کے لیے مختص کر لیے۔
آج اسی برطانیہ کی بھارتی نژاد وزیرِ داخلہ سوئیلا بریورمین کہتی ہیں کہ بلااجازت جزیرے میں داخل ہونے والے تارکینِ وطن کی پناہی درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک انھیں متروک بحری جہازوں میں رکھا جائے گا یا پھر سات ہزار کلومیٹر پرے وسطی افریقہ کے ملک روانڈا میں قائم کیمپوں میں بھیجا جائے گا اور وہیں فیصلہ ہوگا کہ کیا وہ برطانیہ میں داخل ہونے کی شرائط پوری کرتے ہیں یا اپنے آبائی ملک واپس جانے کے بجائے روانڈا میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔
اس " نیک کام " کا پورا خرچہ برطانیہ اٹھائے گا۔ روانڈا کو بس زمین فراہم کرنا پڑی ہے۔ لندن ہائی کورٹ نے اس اسکیم کو ملکی و بین الاقوامی قوانین کے مطابق قرار دیا ہے۔
البتہ انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے اس منصوبے کو پناہ گزینوں سے متعلق انیس سو اکیاون کے بین الاقوامی کنونشن سے متصادم قرار دے کر فی الحال حکمِ امتناعی جاری کر دیا ہے۔ چنانچہ پناہ گزینوں کو برطانیہ سے روانڈا بھیجنے کا کام فی الحال روک دیا گیا ہے۔
مگر خود یورپی یونین نے بھی سوائے یوکرینی پناہ گزینوں کے دیگر تارکین کے لیے اپنے دروازے بہت اونچے کر دیے ہیں۔ چونکہ زیادہ تر غریب پناہ گزین بحیرہ روم پار کرنے کے لیے شمالی افریقہ میں لیبیا کے ساحل سے اپنا انتہائی خطرناک سفر شروع کرتے ہیں۔ لہذا یورپین یونین لیبیا کے سمندری محافظوں کی تربیت اور جدید آلات کی خریداری پر کروڑوں یورو خرچ کررہی ہے۔
بحیرہ روم کو سب سے بڑا بحری قبرستان کہا جاتا ہے جہاں ہر برس یورپ کے خواب آنکھوں میں سجائے لاکھوں پناہ گزیں خود کو سفاک اسمگلروں کی معرفت سمندر کے حوالے کر دیتے ہیں اور ان میں سے اوسطاً بیس ہزار سے زائد انسان سمندری جانوروں کا رزق بن جاتے ہیں۔
تو کیا ان پناہ گزینوں کو ان کی دکھ بھری داستان سنے بغیر اپنی سرحدوں میں داخل ہونے سے روکنا بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے یا بظاہر قانون پسند مغربی ممالک بین الاقوامی کنونشن کی جان بوجھ کے غلط تشریح کر رہے ہیں یا اس قانون کو مکمل طور پر نظرانداز یا پامال کر رہے ہیں؟
جب دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو یورپ میں کروڑوں بے وطن مارے مارے پھر رہے تھے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد کا رخ شمالی امریکا اور مشرقِ وسطی (بالخصوص فلسطین) کی جانب تھا۔ چنانچہ ایک ایسے بین الاقوامی قانون کی ضرورت محسوس ہوئی جو ان کے بنیادی حقوق کا تحفط کر سکے۔
یوں انیس سو اکیاون میں اقوامِ متحدہ کی سرپرستی میں ریفیوجی کنونشن وجود میں آیا اور پھر انیس سو سڑسٹھ میں اس کنونشن میں کچھ اہم ترامیم بھی کی گئیں۔ اقوامِ متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزیناں (یو این ایچ سی آر) اسی قانون کے تحت اپنی بین الاقوامی زمہ داریاں نبھاتا ہے۔ اس کنونشن پر اب تک ایک سو چورانوے ممالک دستخط کر چکے ہیں اور وہ مکمل طور پر اس کا احترام کرنے کے پابند ہیں۔
اس کنونشن کے تحت کوئی بھی ملک کسی پناہ گزین کو جبری طور پر ایسے علاقے یا آبائی ملک واپس نہیں بھیج سکتا جہاں اس کی جسمانی سلامتی خطرے میں پڑجائے۔ کنونشن کے مطابق پناہ کے متلاشی کسی بھی شہری سے اس کی سفری دستاویزات کی قانونی حیثیت کے بارے میں نہیں پوچھا جا سکتا اور نہ ہی بنا دستاویز داخلہ روکا جا سکتا ہے۔
کیونکہ اگر وہ تمام قانونی شرائط پوری کر پاتا تو اسے گھر چھوڑ کے کسی اور ملک میں ہنگامی طور پر پناہ لینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی۔ اور کوئی پناہ گزین اصلی ہے یا جعلی۔ یہ فیصلہ حکومتیں نہیں بلکہ عدالتیں یا پھر یو این ایچ سی آر کر سکتے ہیں۔
امریکا اور یورپی ممالک نے یہ پخ بھی لگادی ہے کہ پناہ گزین اپنے ملک سے نکل کے جس پہلے ملک میں قدم رکھے گا اسے وہیں پناہ کی درخواست دائر کرنی چاہیے۔
اس پہلے ملک کو پھلانگتے ہوئے کسی دوسرے تیسرے چوتھے ملک تک پہنچنے کا عمل ہمدردی کا متقاضی نہیں رہتا۔ اگر یہ دلیل قانونی و منطقی اعتبار سے درست ہے تو پھر برطانیہ کو طیاروں میں بھر بھر کے سات ہزار کلو میٹر پرے اور برطانیہ سے کم ازکم بیس ممالک دور روانڈا بھیجنے کے بجائے ان پناہ گزینوں کو ان کے آبائی ملک سے متصل کسی ملک میں بھیجنا چاہیے۔
فرض کریں کوئی پاکستانی شہری پناہ کے لیے برطانیہ میں داخل ہو جاتا ہے تو برطانیہ کیا اسے روانڈا بھیجے یا پھر پاکستان کے ہمسائیہ ممالک بھارت، افغانستان، ایران اور چین میں لے جا کے اتار دے؟ کیا یہ چاروں ممالک ایسے پاکستانی پناہ گزینوں کو لینے پر آمادہ ہوں گے؟ اگر نہیں تو پھر اسے روانڈا کس جواز کے تحت متقل کیا جا سکتا ہے؟
اقوامِ متحدہ کے آنکڑوں کے مطابق گذشتہ برس (دو ہزار بائیس) دنیا بھر میں جنگوں، تشدد اور امتیازی پالیسیوں کے ستائے دس کروڑ سے زائد لوگوں کو گھر بار چھوڑ کے پناہ گزیں بننا پڑا۔ انسانی تاریخ میں کسی ایک سال میں اتنے لوگوں نے بیرونِ ملک ہجرت نہیں کی۔
مگر عجب تماشا ہے کہ ایک جانب انسانوں کے لیے ان کی اپنی زمین تنگ ہو رہی ہے تو دوسری جانب پناہ دینے کے قابل ممالک کے دل تنگ تر ہوتے جا رہے ہیں۔