آج خود ساختہ افلاطون بننے کا میرا کوئی موڈ نہیں۔ لہٰذا ایک تمثیل، ایک واقعہ اور ایک مورخ کا تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔
(دو گدھوں کی داستان)
ایک شخص نے پہلی بار باربرداری کے لیے گدھا خریدا اور اتنا نہال ہوا کہ گدھے کو چھت پر چڑھا دیا اور اسے بتانے لگا کہ کون کون سا راستہ میرے گھر کو آتاہے اور قبیلے کی آبادی کتنی دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ تو مجھے اپنا مالک نہیں دوست سمجھنا۔ تو میرے لیے کام کرنا۔ میں تیرا خیال رکھوں گا وغیرہ وغیرہ۔
سورج ڈھلنے لگا تو اس شخص نے گدھے کو نیچے اتارنے کی کوشش کی تاکہ طویلے میں باندھ دے۔ مگر گدھے کو چھت کا نظارہ اتنا پسند آیا کہ نیچے اترنے سے انکار کر دیا۔ مالک جتنا زور لگاتا گدھا اتنا ہی اینٹھتا جاتا۔ تنگ آمد مالک نے طیش میں آ کر چابک رسید کرنا شروع کی تو گدھے کو بھی غصہ آگیا اور اس نے مالک کو دولتیاں مار کے زخمی کر دیا اور چھت پر چہار جانب بے تحاشا دوڑنے اور کودنے لگا۔
مالک ڈر کے نیچے اتر آیا مگر گدھے کے کودنے کے زور سے مٹی کی چھت گرپڑی اور گدھا ملبے تلے آ کر شدید زخمی ہو کر بے دم ہو گیا۔ افسردہ مالک نے اس کے سرہانے کھڑے ہو کر سر ہلاتے ہوئے کہا "قصور تیرا نہیں میرا ہے۔ تجھے اوپر لے جاتے ہوئے بھول گیا کہ تیرا مقام نیچے ہی تھا "۔
(بخارا کا محاصرہ)
جب منگول سپاہ نے بخارا کا محاصرہ کرلیا تو اہلِ شہر کو سپاہ سالار نے پیغام بھیجا " جو ہمارا ساتھ دے اسے امان ہے "۔
اہلِ بخارا میں نفاق پیدا ہوگیا۔ ایک گروہ نے اصرار کیا کہ ہم شہر کے تحفظ کے لیے آخری سانس تک لڑیں گے۔ دوسرے گروہ نے بربادی کے خوف سے ہتھیار رکھنے کی صلاح دی۔ منگول سپاہ سالار نے مصالحت پسند گروہ کو پیغام بھیجا کہ اگر تم مزاحمت پر کمر بستہ گروہ کو زیر کرنے میں ہاتھ بٹاؤ تو تمہیں اس شہر کی قیادت بخش دی جائے گی۔ چنانچہ خانہ جنگی شروع ہو گئی اور منگول اطمینان سے تماشا دیکھتے رہے۔
جب وفادار گروہ غالب آ گیا تو منگولوں نے اسے ہی سب سے پہلے غیر مسلح کر کے تلوار کی دھار پر رکھ لیا۔ سپاہ سالار نے کہا اگر یہ لوگ ایک اجنبی کے بھروسے پر اپنے ہی بھائیوں کا گلا کاٹ سکتے ہیں تو پھر یہ کسی کے بھی کام کے نہیں۔ (مورخ ابنِ اثیر الجذری)۔
(بادشاہ کی واپسی)
یہ بات تاریخی اعتبار سے درست نہیں کہ انیس سو پانچ میں جاپان کے ہاتھوں زارِ روس کی بحریہ کی تباہی سے پہلی بار مشرق کو معلوم ہوا کہ کوئی مغربی طاقت بھی شکست کھا سکتی ہے۔ درحقیقت انیسویں صدی کی پہلی اینگلو افغان جنگ (اٹھارہ سو انتالیس تا بیالیس) تاریخ ساز ہے جس سے اہلِ مشرق پر یہ راز کھلا کہ اپنے وقت کی سب سے مضبوط مغربی طاقت بھی ناقابلِ تسخیر نہیں۔
جب چھ جنوری اٹھارہ سو بیالیس کے دن کابل چھاؤنی سے ساڑھے اٹھارہ ہزار نفر پر مشتمل برطانوی سپاہ کو پسپائی کا سفر اختیار کرنا پڑا تو برطانوی فوج کا سرجن ڈاکٹر برائیڈن ہی چھ دن بعد زندہ جلال آباد پہنچ پایا۔ کہنہ ہتھیاروں سے مسلح قبائلیوں نے سب سے طاقتور عالمی سپاہ کو راستے میں ہی کاٹ ڈالا۔
ایک برس بعد ریورن جی آر گلیک نے اس جنگ کا احوال و تجزیہ قلمبند کرتے ہوئے لکھا کہ اس مہنگی تباہ کن لڑائی سے بچا جا سکتا تھا۔ یہ جنگ کسی واضح مقصد کے بغیر سرسری ردِعمل کے تحت لڑی گئی۔ اس لڑائی کا ایک بھی سیاسی یا عسکری فائدہ نہیں ہوا۔ بس ماتھے پر شکست کا ایک بڑا سا داغ ثبت ہوگیا۔ مگر نخوت ناقابلِ شکست ہی رہی اور ہزیمت کا بدلہ لینے کے لیے تیس برس بعد دوسری اور پھر اس کے بیس برس بعد تیسری اینگلو افغان جنگ برپا کی گئی۔ وہ الگ بات کہ پہلی اینگلو افغان جنگ کی تلخ یاد برطانوی نوآبادیاتی نفسیات کے ساتھ لمبے عرصے کے لیے چپکی رہی۔
اکتوبر انیس سو تریسٹھ میں وزیرِ اعظم ہیرلڈ میکملن نے اگلے وزیرِ اعظم ایلک ڈگلس ہیوم سے کہا کہ جب تک تم افغانستان میں مداخلت جیسا کوئی فاش فیصلہ نہیں کرو گے تب تک ٹھیک رہو گے۔ مگر افسوس کہ وزیرِ اعظم جان میجر آنے والے وزیرِ اعظم ٹونی بلئیر کو ایسی کوئی نصحیت کرنا بھول گئے اور بلئیر نے نائن الیون کے بعد جارج بش کے ہمراہ افغانستان میں گھسنے کا فیصلہ کر لیا۔
یوں یہ چوتھی جنگِ افغانستان کم و بیش پہلی جنگ جیسے نتائج کا موجب بن گئی۔ وہی جغرافیہ، وہی قبائل، وہی ان کی نفسیات، وہی جھگڑے، وہی پگڑیوں کا ادل بدل، وہی چھاؤنیاں اور ان چھاؤنیوں میں وہی اجنبی سپاہ۔ بس کٹھ پتلیاں، نظریہ اور جھنڈا تبدیل ہوا۔ پہلی کی طرح چوتھی جنگ چھیڑتے ہوئے بھی فرض کر لیا گیا کہ چند دنوں میں قصہ پاک ہو جائے گا۔ ایک وفادار حکومت معاملات سنبھال لے گی اور دلدل میں دھنسے بغیر ایک آدھ برس میں ہم وہاں سے سالم و ثابت نکل آئیں گے۔
جس طرح اٹھارہ سو انتالیس میں پوپلزئی قبیلے کے شاہ شجاع الملک کو بطور کٹھ پتلی تختِ کابل پر بٹھایا گیا۔ اسی طرح ایک سو باسٹھ برس بعد حامد کرزئی پوپلزئی کو لایا گیا۔ جس طرح محمد شاہ غلزئی نے اٹھارہ سو اکتالیس میں برطانیہ نواز کابل حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور برطانوی سپاہ سے بھڑ جانے والوں کی قیادت کی۔ اسی طرح ملا عمر غلزئی کے حامیوں نے دو ہزار تین کے بعد سے غیرملکی افواج پر حملے شروع کر دیے (طالبان کے عسکری ڈھانچے میں غلزئی قبائلی اکثریت پیش پیش ہے)۔
دراصل افغانستان کا مشکل جغرافیہ اور اس میں رہنے والوں کی غربت ہی وہ ہتھیار ہیں جن کا مقابلہ کرتے کرتے بیرونی مہم جو عسکری و اقتصادی تھکن سے چور چور ہو جاتے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ صوبہ ہلمند کے دو اضلاع پر قبضہ برقرار رکھنے کا سالانہ امریکی خرچہ مصر کو ملنے والی سالانہ امریکی فوجی و اقتصادی امداد کے برابر ہے۔
جب افغانستان پر میری کتاب " پہلی اینگلو افغان جنگ۔ ایک بادشاہ کی واپسی " کا پہلا ایڈیشن دو ہزار بارہ میں شایع ہوا تو حامد کرزئی نے اس کتاب پر بات کرنے کے لیے مجھے صدارتی محل میں مدعو کیا۔ مجھے یہ سمجھانا چاہا کہ ان کی کوشش ہے کہ وہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں جو شاہ شجاع سے سرزد ہوئی تھیں۔
وکی لیکس کی افشا کردہ وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن کی ایک ای میل نیویارک ٹائمز میں بھی شایع ہوئی جس میں ہیلری نے شکوہ کیا کہ اوباما انتظامیہ سے کرزئی کی جانب سے سرد مہری برتے جانے کا ایک سبب " بادشاہ کی واپسی " نامی کتاب بھی ہے۔
افسوس کہ کرزئی کے جانشین اشرف غنی میں کرزئی جیسی سفارتی معاملہ فہمی ایک بھی خوبی نہیں پائی گئی۔ وہ شاید علمِ تاریخ سے بھی پیدل ہے۔ کرزئی کے لہجے کی نرمی کے برعکس غنی کی بے صبری، اکھڑ پن اور اکڑ کے سبب اہم قبائیلی رہنما اس سے بیگانہ ہوتے چلے گئے۔ ایسے شخص کے لیے بھلا کون جان ہتھیلی پر رکھے گا۔
جو کابل حکومت کے حامی ہیں۔ آج کے افغانستان میں ان میں سے بھی شاید ہی کوئی ہو جو اب بھی ناٹو یا امریکا کو قابلِ بھروسہ سمجھتا ہو۔ جب کہ ان کے مخالفین کو پروپیگنڈے کے لیے ایک بے بہا خزانہ ہاتھ آ چکا ہے۔
اٹھارہ سو بیالیس میں گندامک کے مقام پر دم توڑتی برطانوی سپاہ کو آخری معرکہ پیش آیا تھا۔ دو ہزار نو میں میری اس گاؤں کے چند معززین سے ملاقات ہوئی۔ ایک بوڑھے مشر نے کہا کہ پورا امریکا جانتا ہے کہ وہ بازی ہار گئے ہیں مگر ان کے رہنما حالتِ انکار میں ہیں۔ اس کے ساتھ بیٹھے ایک اور بزرگ نے کہا "آج امریکا ہے۔ کل چین آئے گا۔ معلوم نہیں تاریخ پڑھ کے آئے گا یا بنا پڑھے"۔ (مورخ ولیم ڈارلمپل، ٹیلیگراف، سترہ اگست دو ہزار اکیس)۔